افغان صحافی زہرہ جویا کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں پابندیوں میں جکڑی خواتین کے مسائل کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے پرعزم ہیں۔
زہرہ جویا ٹائمز میگزین کی 'ویمن آف دی ایئر' کا اعزاز پانے والی خواتین میں سے ایک ہیں۔انتیس سالہ زہرہ جویاخواتین کی خبریں دینے والی نیوز ایجنسی ''رخسانہ میڈیا''کی بانی ہیں۔اس ادارے میں کام کرنے والی زیادہ تر خواتین تھیں۔
افغانستان میں طالبان کےاقتدار میں آنے کے بعد زہرہ جویا کو ملک چھوڑنا پڑا۔ وہ ان دنوں برطانیہ میں مقیم ہیں اور جلا وطنی میں بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئی ہیں۔
وہ برطانیہ سے افغانستان میں رہ جانے والی خواتین کی طالبان حکمرانی میں زندگی بسر کرنے کی خبریں اور داستانیں شائع کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو زہرا کے ساتھ ساتھ افغانستان میں ان کی معاونین کے لیے بھی خطرے کا باعث ہے۔
وائس آف امریکہ کی شائستہ لامی سے بات کرتے ہوئے زہرہ جویا کا کہنا تھا کہ وہ افغان خواتین کی مشکل زندگی کا حال دنیا کو بتاتی رہیں گی۔
زہرہ جویا کا کہنا تھا کہ ''یہ بہت ضروری ہے کہ دنیا اس وقت افغان خواتین کو فراموش نہ کرے بلکہ پریس کی آزادی اور خواتین کے بنیادی حقوق کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دے۔''
ٹائمز میگیزین کی وومن آف دی ایئر کا اعزاز پانے پران کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہے کہ افغان خواتین پر گزرنے والے اس کڑے وقت میں جب خواتین پابندیوں اور مشکلات سے نبردآزما ہیں، ان کا نام لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں گزشتہ دس برسوں میں انہوں نے خواتین کے مسائل اور ان کی خبروں کو اجاگر کیا اور جلا وطنی میں بھی گزشتہ چھ ماہ سے وہ رخسانہ میڈیا کے ذریعےانہی کوششوں میں مصروف ہیں۔
زہرہ کا کہنا ہے انہوں نے کابل میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہونے والی افغان خواتین کی ہر تقریب، ہر کانفرنس اور ہر احتجاج پر بلا خوف و خطر رپورٹنگ کی ہے۔
زہرہ جویا نے بتایا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد انتقامی کاروائیوں کے پیش نظر خواتین صحافیوں کی بڑی تعداد نے صحافت چھوڑ دی اور کئی ملک سے باہر چلی گئیں۔ ان کے مطابق وہ جانتی ہیں کہ یہ خواتین ایک مشکل وقت سے گزر رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ رخسانہ میڈیا برطانیہ سے چلا تو رہی ہیں مگر انہیں اپنی ساتھیوں کی زندگی کی فکر ہے۔ انہوں نے ںتایا کہ یہ سوچ انہیں اداس کر دیتی ہے کہ موجودہ افغانستان میں دنیا کو دکھانے کے لیے اتنے مسائل ہیں مگر وہاں ان گنت پابندیوں کا سامنا ہے۔
زہرہ کے مطابق افغانستان میں خواتین کی حالت زار سے مایوس ایسی بہت سی عورتیں ہیں جو انہیں اپنی کہانیاں بھیجتی ہیں اور وہ خود یہ کہانیاں دنیا کے سامنے لانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں تاکہ ان خواتین کو فراموش نہ کر دیا جائے۔
ایسی ہی ایک عورت کی کہانی زاہرہ نے وائس آف امریکہ کو بتائی جس کے گھر طالبان نے چھاپہ مارا اور اسے پکڑ کر یہ الزام عائد کیا کہ اس نے طالبان کی گھر گھر تلاشی کی وڈیو بنائی۔ طالبان نے اس کا فون قبضے میں لے کر اس کے والد کو دھمکیاں دیں اور اس کے فون سے کئی وڈیوز ڈیلیٹ کر دیں۔
زہرہ جویا کے مطابق ان کے لیے یہ کہانیاں نئی نہیں بلکہ انہیں روز ہی ایسی کہانیاں وصول ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ خواتین شدید مایوس ہیں اور انہیں مستقبل میں اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا۔
( یہ خبر وائس آف امریکہ پشتو سروس کے ایک انٹرویو سےلی گئی ہے)