گوگل پر ’ٹرکی‘ لکھا جائے تو سرخ پرچم کے ساتھ اس پرندے کی تصویر بھی سامنے آتی ہے جسے امریکہ میں ’تھینکس گیونگ ڈے‘ اور کرسمس کے تہوار پر بڑے اہتمام کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔
ایک بڑے پرندے کا نام ہونے کے علاوہ کیمبرج ڈکشنری میں اس لفظ کا ایک اور معنی ’احمق یا بے وقوف‘ شخص بھی درج ہے۔
ترکی کے نشریاتی ادارے ’ٹی آر ٹی‘ نیوز کے مطابق عام طور پر ترک قوم کے لوگ اپنے ملک کے لیے ’ترکی‘ کے لفظ کو اس لیے پسند نہیں کرتے کیوں کہ ان کے مطابق اس لفظ سے بعض مضحکہ خیز اور تحقیر آمیز تصورات بھی جڑے ہیں۔ ویسے بھی مقامی زبان میں یہ لفظ ’ترکیے‘ہے۔
گزشتہ برس ترک صدر رجب طیب ایردوان نے بھی ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا کہ تمام رسمی مراسلت اور کاروباری برانڈنگ وغیرہ میں Turkey یا Turkie اور Turquie کے بجائے ترکیے (Turkiye) کا لفظ استعمال کیا جائے گا۔ترکی اقوامِ متحدہ میں اپنا نام انگریزی میں بھی ’ترکیے‘ رجسٹرڈ کرانے کی تیاری مکمل کرچکا ہے۔
ترکیے کا لفظ کہاں سے آیا؟
معروف امریکی مصنف اور تاریخ دان برنرڈ لوئس اپنی کتاب ’ایمرجنس آف ماڈرن ترکی‘ میں لکھتے ہیں کہ جب کہا جائے کہ ’ترک وہ ہوتا ہے جو ترکی بولتا ہے اور ترکی میں رہتا ہے‘ تو یہ تعریف پہلی نظر میں اجنبی محسوس ہوتی ہے کیوں کہ ترکی میں رہنے والوں نے اپنی سماجی، سیاسی تاریخ اور ماضی سے کٹنے کے بعد موجودہ شناخت اختیار کی ہے۔
تاریخ کے مطابق مغربی ایشیا میں اناطولیہ کےخطے کو گیارہویں صدی میں ترک قبائل نے فتح کیا تو اسے ’ٹرکی‘ کہا جانے لگا تھا۔ لیکن یہ نام اسے یورپیوں نے دیا تھا۔
سلطنتِ عثمانیہ نے 30 اکتوبر 1918 کو پہلی عالمی جنگ سے دستبرداری کے لیے برطانیہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے۔ جس کے بعد اس سلطنت کے زوال کا سفر اختتامی مراحل میں داخل ہو گیا۔ بالآخر 29 اکتوبر 1923 کو ترکی کے اعلانِ آزادی کے ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور اس نے ترکی کا نام اختیار کر لیاجسے انگریزی میں ’ٹرکی‘ لکھا اور بولا جاتا ہے اور ترکی زبان میں اسے ’ترکیے‘ کہا جاتا تھا جو کہ اس کے یورپی نام ہی سے اخذ کیا گیا تھا۔
ترک کہلانا توہین؟
عثمانی حکومت کے دور میں موجودہ دور کا ترکی بھی سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا لیکن اس دور میں عثمانی خود کو کم ہی ترک کہلاتے تھے۔ برنرڈ لوئس کے مطابق عثمانی دور میں ترک ایک تحقیر آمیز لفظ تصور ہوتا تھا۔
ان کے مطابق عام طور پر ترکمان قبائل سے تعلق رکھنے والے چرواہوں یا اناطولیہ کے اجڈ اور ان پڑھ دیہاتی باشندوں کو بھی ترک کہا جاتا تھا۔ قسطنطنیہ کی عثمانی اشرافیہ میں کسی کو اگر ترک کہہ دیا جاتا تو وہ اسے اپنی تذلیل تصور کرتا تھا۔
لوئس کے مطابق عثمانی بھی بنیادی طور پر اموی اور عباسی کی طرح ایک خاندانی شناخت تھی۔ انیسویں صدی کے آغاز تک ترکوں کے لیے اپنی شناخت کا پہلا حوالہ مسلم ہونا تھا۔ ترک قوم پرستی کے تصور کی مقبولیت ساتھ ساتھ اس میں مذہب کا عنصر برقرار تو رہا لیکن قومی شناخت کو اولیت حاصل ہوگئی۔
قوم پرستی کی تحریک مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ترکوں کے لیے شناخت مذہبی کے بجائے قومی روایت سے جڑ گئی اور اس کا جھکاؤ یورپ کی طرف ہو گیا۔
لوئس کے مطابق اپنے لیے ترک اور ملک کے لیے ترکی کی شناخت اختیار کرنا اسی تاریخی تبدیلی کی علامت تھی۔ مقامی زبانی میں ترکی ’ترکیے‘ ہی تھا لیکن عام طور پر دنیا میں یورپیوں کا دیا ہوا نام ’ٹرکی‘ ہی عام ہوا۔
پرندے کا نام کیسے پڑا؟
پرندے کو ’ٹرکی‘ کہنے کا تاریخی پس منظر بھی یورپی تاریخ سے جڑا ہے۔ یورپی نوآباد کار جب شمالی امریکہ پہنچے تو انہوں ںے وہاں مشرقی افریقہ میں پائے جانے والے پرندے گنی فاؤل سے ملتے جلتے جنگلی پرندے دیکھے۔
اس دور میں یورپی گنی فاؤل قسم کے پرندے سلطنتِ عثمانیہ سے درآمد کرتے تھے۔ اسی مماثلت کی بنیاد پر انہوں نے شمالی امریکہ کے جنگلی پرندے کو’ٹرکی مرغ‘ کا نام دیا اور پھر یہ نام رائج ہوگیا۔
نام بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
صدر ایردوان کے حکم نامے میں ترکی کو بدل کر ترکیے کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ لفظ ترک قوم کی ثقافت، تہذیب اور اقدار کی نمائندگی کرتا ہے۔
لیکن مبصرین اسے ملک کی ری برینڈنگ کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ماہر سلیم کورو کا کہنا ہے کہ ایردوان اور ترک قومی پرندے ’ٹرکی‘ کے ساتھ اپنے ملک کے نام کی مماثلت کو شدید ناپسند کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ایردوان کی حکومت قومی شناخت کے بیانیے سے متعلق حساس ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ وہ اپنے ملک کے لیے کسی مضحکہ خیز یا پرندے کے تصور سے جڑے نام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
ایردوان حکومت کے حامی تصور ہونے والے اخبار ’ڈیلی صباح‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق یہ فیصلہ صدر ایردوان کے جدید قومی ریاست کے تصور کی ری برینڈنگ کی کوشش ہے۔ اس میں ملکی مصنوعات کی شناخت ممتاز کرنا بھی شامل ہے۔
کلاوس جارگن کہتے ہیں کہ جس طرح سوئٹزر لینڈ کا نام آتے ہی چاکلیٹ یا گھڑیاں ذہن میں آتا ہے، ترکی بھی اپنی الیکٹرانک اور دیگر مصنوعات کو اپنے ملک کی شناخت کا حصہ بنانے چاہتے ہیں۔ اس میں ترکی لفظ سے جڑے مفاہیم ایک رکاوٹ ہیں۔ اس لیے اس کا املا 'ترکیے' کرنا سیاسی کے ساتھ ساتھ ایک کاروباری ری برینڈنگ بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ترکی کی مختلف کمپنیاں پہلے ہی برآمدی اشیا پر ’میڈ ان ترکیے‘ لکھنا شروع کرچکی تھیں۔ جنوری 2020 سے ترکی کے برآمد کنندگان کی تنظیم نے مصنوعات پر میڈ ان ترکیے لکھنا شروع کردیا تھا۔
نام تبدیل کرنے والےملک
صدر ایردوان کا حکم نامہ جاری ہونے کے بعد عالمی سطح پر ملک کے نام کا املا بدلنے کے لیے اقوامِ متحدہ کا ایک نوٹی فکیشن کافی ہوگا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ترکی اس سلسلے میں تیاریاں مکمل کرچکا ہے۔ اقوامِ متحدہ سے منظوری کے بعد اگر ترکی کا نام ’ترکیے‘ ہوجاتا ہے تو یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہو گی۔
تاریخ اور ماضی قریب میں کئی ممالک اور ریاستیں سیاسی و تاریخی اسباب سے اپنے نام میں تبدیلی کرتے آئے ہیں۔ مثلاً 1935 میں ایران نے اپنا نام ’پرشیا‘ سے بدل کر ایران کردیا تھا۔
اس کے علاوہ ہالینڈ کا نام بدل کر نیدرلینڈز کیا گیا۔ یونان کے ساتھ سیاسی تنازع کی وجہ سے ’مقدونیہ‘ نے نام بدل کر شمالی مقدونیہ کردیا تھا۔ گزشتہ ایک دہائی میں کم و بیش ایک درجن ممالک اسی طرح اپنے نام تبدیل کرچکے ہیں۔