رسائی کے لنکس

"سرحدی تنازع کے حل تک چین، بھارت کشیدگی کم نہیں ہو سکتی'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

چین کے وزیرِ خارجہ اسلام آباد میں اسلامی ممالک تنظیم (او آئی سی) اجلاس میں شرکت کے بعد جمعرات کو بھارت پہنچ رہے ہیں جہاں وہ بھارتی ہم منصب سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وانگ یی نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے جمعے کو ملاقات کریں گے۔

اپریل 2020 میں بھارت اور چین کے درمیان ایکچوئل کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر کشیدگی اور پھر 15 اور 16 جون کی درمیانی شب کو سرحدی تصادم کے باعث 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق چین نے خود اس دورے کی تجویز رکھی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے مقصد سے مزید تجاویز پیش کی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق وانگ یی کے دورے کے ایجنڈے کے سلسلے میں عدم اتفاق کی وجہ سے آخر تک اسے راز میں رکھا گیا اور دونوں میں سے کسی بھی ملک نے دورے کی تصدیق نہیں کی۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس دورے کا مقصد بھارت چین رشتوں میں کشیدگی کو دور کرنا، روس یوکرین تنازع کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کرنا اور باہمی تجارت کو فروغ دینا شامل ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اگر چہ بھارت نے چین سے کیے جانے والے متعدد معاہدوں کو یا تو معطل کر دیا ہے یا منسوخ، اس کے باوجود حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کی باہمی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔

چینی وزیرِ خارجہ نے منگل کو اسلام آباد میں اسلامی ممالک تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں بھی شرکت کی تھی۔
چینی وزیرِ خارجہ نے منگل کو اسلام آباد میں اسلامی ممالک تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں بھی شرکت کی تھی۔


مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ جب تک 'ایل اے سی' پر اسٹیٹس کو یعنی پہلے والی صورتِ حال بحال نہیں ہو گی، تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔ اس کے باوجود اس دورے کا ہونا بھارت کے سابقہ مؤقف میں تبدیلی کا اشارہ کرتا ہے۔

اسی درمیان چین کے وزیر ِخارجہ نے اسلام آباد میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ (او آئی سی)کے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے متعلق جن خیالات کا اظہار دوست مسلم ممالک نے کیا ہے چین بھی اسی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔

اس پر بھارت کی جانب سے سخت ردِعمل ظاہر کیا گیا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ کسی بھی ملک کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

انہوں نے چینی وزیرِ خارجہ کا نام لے کر ان کے بیان کو غیر ضروری قرار دیا۔ خیال رہے کہ سفارت کاری میں بیان دیتے وقت کسی اہل کار کا عام طور پر نام نہیں لیا جاتا۔

رپورٹس کے مطابق وانگ یی بھارتی حکام سے ملاقات کے دوران جہاں یوکرین اور روس کے تنازع پر تبادلۂ خیال کریں گے وہیں وہ اس سال کے آخر میں بیجنگ میں منعقد ہونے والے پانچ ملکوں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے گروپ برکس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی شرکت پر بھی گفتگو کریں گے۔

'سرحدی تنازعات کے حل تک کشیدگی ختم ہونے کا امکان نہیں'

سابق سفارت کار پناک رنجن چکرورتی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چینی وزیرِ خارجہ کے دورے کے دو تین مقاصد ہیں۔ ایک تو یہ کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ دوسرا یوکرین روس کا معاملہ ہے اور تیسرے باہمی تجارت کے فروغ کی بات ہے۔ اس کے علاوہ برکس اجلاس کا معاملہ بھی ہے۔

لیکن ان کے مطابق بھار ت نے کہا ہے کہ جب تک لداخ میں ایل اے سی پر پہلے والی صورتِ حال بحال نہیں ہوتی ہے، تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال کے آخر میں چین میں برکس کا اجلاس ہونے والا ہے۔ چین چاہتا ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اس میں شرکت کریں۔ کیونکہ اگر وہ جانے سے انکار کرتے ہیں تو یہ چین کے لیے ’لاس آف فیس‘ ہوگا اور چین میں ’لاس آف فیس‘ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ وہ لوگ اسے اپنی تضحیک سمجھتے ہیں۔لہٰذا ان کے ایجنڈے میں یہ معاملہ بھی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت روس اور یوکرین کی جنگ کا بھی معاملہ ہے۔ چین چاہتا ہے کہ بھارت یا تو غیر جانبدار رہے یا روس اور چین کی حمایت کرے۔ لیکن ان کے خیال میں بھارت جس طرح اب تک غیر جانبدار رہا ہے آگے بھی رہے گا۔

'خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرد جنگ جیسا ماحول نہ بن جائے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:03 0:00


انہوں نے کہا کہ بھارت چین کی حمایت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اس کو اسی سے خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کواڈ کا رکن بنا۔ ادھر امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت اس کی جانب رہے۔ لیکن بھارت نے کسی کی بھی طرف ہونے سے انکار کیا ہے۔

ان کے بقول امریکہ بھارت سے اپنے اسٹریٹجک رشتوں کو بہت اہمیت دیتا ہے اسی لیے امریکہ کی جانب سے جو بیانات آرہے ہیں ان سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ اسے بھارت کی پوزیشن کا احساس ہے۔

پناک رنجن نے چینی وزیر خارجہ کے جموں و کشمیر کے بارے میں اسلام آباد میں دیے گئے بیان کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے جو بھی کہا بھارت نے اس کا جواب دے دیا او ربھارت کو جواب دینا بھی تھا۔ لہٰذا کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بات ختم ہو گئی۔


پناک رنجن کے خیال میں چین چاہتا ہے کہ وہ ایل اے سی پر زمینوں پر قبضہ بھی برقرار رکھے اور تجارتی و سیاسی تعلقات بھی معمول پر رہیں۔ان کے بقول ایسا بھارت کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔

'مودی بھارت کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں لا رہے ہیں'

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار سعید نقوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت عالمی نظام میں کافی تبدیلی آ رہی ہے۔ ایسے میں بھارت کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نریند رمودی نے ابھی چار ریاستوں کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اس کی وجہ سے ان کی پوزیشن اور مضبوط ہو گئی ہے۔ وہ کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق وزیرِ اعظم مودی اس وقت بھارت کی خارجہ پالیسی کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کے بقول بھارت یہ بات سمجھتا ہے کہ اس کو اسی خطے میں رہنا ہے۔ چین اور پاکستان اس کے پڑوسی ہیں۔ ایران بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ ان کے مطابق اس وقت بھارت امریکہ، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کے گروپ ’کواڈ‘ اور آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے گروپ ’آکس‘ کے پلیٹ فارم پر عدم اطمینان کا شکار ہے۔ لہٰذا اس وقت بھارت چین اور پاکستان کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی میں مصروف ہے۔

ان کے مطابق پہلی بار یہاں کے نیوز چینلز نے دو تین دن تک متواتر ایسی رپورٹس دیں کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر ایک سال تک سیز فائر پر عمل کیا گیا ہے۔ اس درمیان دونوں طرف سے ایک بھی گولی نہیں چلی۔ ان کے خیال میں یہ حالات کی جانب ایک اشارہ ہے۔وہ اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کشیدگی میں کافی کمی آئی ہے۔ دونوں ملکوں کی افواج اپنی پوزیشنوں سے کچھ پیچھے ہٹی ہیں۔

ان کے مطابق چین روس اور یوکرین تنازع پر بھی بھارت کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنا چاہتا ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد عالمی صورتِ حال بدل رہی ہے اور بھار ت کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا پڑ رہی ہے۔ لہٰذا اب ایسا لگتا ہے کہ ان حالات میں بھارت عالمی امور میں ایک مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG