رسائی کے لنکس

لڑکیوں کے اسکولز کی بندش پر خواتین کا احتجاج،'طالبان افغان خواتین کو دبا نہیں سکتے'


اسکولوں کی دوبارہ بندش کے خلاف عالمی سطح پر بھی سخت ردِ عمل آیا ہے جب کہ افغانستان میں طالبات اور خواتین نے احتجاج بھی کیا ہے۔
اسکولوں کی دوبارہ بندش کے خلاف عالمی سطح پر بھی سخت ردِ عمل آیا ہے جب کہ افغانستان میں طالبات اور خواتین نے احتجاج بھی کیا ہے۔

افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول کھلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی بند کرنے کے طالبان کے حکم کے خلاف خواتین سراپا احتجاج ہیں جب کہ عالمی برادری کی جانب سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ تمام بچوں کے لیے اسکولوں کو کھولا جائے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند تھے۔ یہ اسکولز وزارت تعلیم کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق بدھ کو کھلنے تھے۔ البتہ جب بدھ کو اسکول کھلے تو کچھ ہی گھنٹوں بعد طالبان نے انہیں دوبارہ بند کرنے کا حکم جاری کردیا۔

اسکولوں کی دوبارہ بندش کے خلاف عالمی سطح پر بھی سخت ردِ عمل آیا ہے جب کہ افغانستان میں طالبات اور خواتین نے احتجاج بھی کیا ہے۔

مظاہرین نے اسکولز دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے اسکولز دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق دارالحکومت کابل میں ہفتے کو خواتین اور طالبات نے احتجاج کیا۔انسانی حقوق کے دو گروہوں کی جانب سے ہونے والے اس احتجاج میں مظاہرین نے'' اسکول کھولے جائیں اور انصاف، انصاف'' کے نعرے لگائے۔ احتجاج میں شامل کچھ طالبات نے اسکول کی کتابیں بھی اٹھائی ہوئی تھیں۔

مظاہرین نے بینرز بھی اٹھارکھتے تھے جس پر ''تعلیم ہمارا بنیادی حق ہے، یہ کوئی سیاسی منصوبہ نہیں۔'' درج تھا۔

طالبان کی جانب سے سیکنڈری اسکولز کی دوبارہ بندش کا فیصلہ منگل کی رات کو طالبان کے مرکز سمجھے جانے والے شہر قندھار میں سینئر حکام کی ملاقات کے بعد سامنے آیا تھا۔ طالبان نے اس فیصلے کی کوئی واضح وجہ نہیں بتائی تھی۔

خواتین نے کابل میں وزارتِ تعلیم کے سامنے مظاہرہ کیا۔
خواتین نے کابل میں وزارتِ تعلیم کے سامنے مظاہرہ کیا۔

واضح رہے کہ افغانستان میں سیکنڈری اسکول کی طالبات سات ماہ سے زائد عرصے سے تعلیم سے محروم ہیں۔15 اگست 2021 کو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں خواتین پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ انہیں کئی سرکاری ملازمتوں سے نکال دیا گیا تھا جب کہ ان کے اکیلے طویل سفر کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔

مظاہرے میں شامل ایک خاتون نویسا کا کہنا تھا کہ '' پیغمبر اسلام نے بھی کہا ہے کہ ہر کسی کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے لیکن طالبان نے ہم سے ہمارا یہ حق چھین لیا ہے۔''

ایک اور خاتون لیلا بسیم نے کہا کہ ''طالبان افغانستان کی خواتین کو دبا نہیں سکتے۔''

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے 10 اراکین نے طالبان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان بھر میں تمام لڑکیوں کے اسکولز دوبارہ کھولے جائیں۔

جمعہ کو جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں رکن ممالک کا کہنا تھا کہ ''ہمارا پیغام واضح ہے کہ افغانستان میں تمام لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔''

یہ مشترکہ بیان امریکہ، برطانیہ، فرانس، البانیہ، برازیل، گبون، میکسیکو، ناروے اور آئرلینڈ کی جانب سے جاری کیا گیا۔

سلامتی کونسل کے رکن ممالک نے کہا کہ ''اس بیان کے ذریعے رکن ممالک کا طالبان کے لیے واضح پیغام ہے کہ سب کے لیے اسکولز کھولے جائیں اور ملک میں تمام بچوں اور نوجوانوں کو محفوظ تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے۔''

بیان میں کہاگیا کہ رواں ہفتے لاکھوں افغان لڑکیاں نم آنکھوں کے ساتھ گھر لوٹیں لیکن ہم انہیں نہیں گرنے دیں گے۔افغانستان کے محفوظ اور مستحکم مستقبل کے لیے وہ ہنر اور صلاحیتوں کو چھوڑ نہیں سکتے اور افغانستان کی نصف آبادی کو تعلیم سے محروم نہیں رکھ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم ہر معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم افغان لڑکیوں سمیت تمام بچوں کا بنیادی حق ہے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری افغانستان کے عوام بشمول تمام بچوں کی تعلیم کے لیے کی مدد جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG