امریکی سینیٹ نے جمعرات کے روز پہلی سیاہ فام سپریم کورٹ کی جج کیٹانجی براؤن جیکسن کی تقرری کی منظوری دے دی ہے۔51 برس کی کیٹانجی براؤن جیکسن اس سے پہلے امریکی اپیلز کورٹ کی جج رہ چکی ہیں، جب کہ وہ وفاقی بینچ کا بھی نو برس کا تجربہ رکھتی ہیں۔
انہیں سینیٹ میں 47 کے مقابلے میں 53 ووٹوں سے منظوری حاصل ہوئی۔ انہیں ڈیموکریٹک پارٹی کے پچاس ووٹ کے علاوہ 3 ووٹ حزب اختلاف کی ری پبلکن پارٹی کی جانب سے بھی ملے۔ سینیٹ کی کارروائی کی صدارت امریکی نائب صدر کاملا ہیرس کر رہی تھیں جو خود پہلی سیاہ فام خاتون ہیں جو اعلیٰ عہدے تک پہنچی ہیں۔
سینیٹ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے اکثریتی رکن چک شومر نے ایک بیان میں کہا کہ ’’یہ سینیٹ، سپریم کورٹ اور امریکہ کے لیے ایک بہترین دن ہے، خوشی کا دن ہے‘‘۔
جب نائب صدر کاملا ہیرس نے نتائج کا اعلان کیا تو سینیٹ کے چیمبر سے مبارک باد کے پیغامات کو بند دروازوں کے پرے بھی سنا جا سکتا تھا۔ سینیٹ کی اوپری منزل کی گیلری عالمی وبا کے بعد سے آج پہلی دفعہ لوگوں کے ہجوم سے بھر چکی تھی۔
رواں برس گرمیوں کے دوران جب جسٹس سٹیفن برئیر سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوں گے تو جیکسن اپنا عہدہ سنبھالیں گی۔
جیکسن کی سپریم کورٹ میں تقرری سے صدر بائیڈن نے انتخابات کی مہم کے دوران سپریم کورٹ کے لیے پہلی سیاہ فام خاتون جج کی تقرری کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ ان کی تقرری سے اگرچہ امریکی سپریم کورٹ میں قدامت پسند جج حضرات کی اکثریت پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن وہ ترقی پسند ججوں کی میراث کو آگے بڑھائیں گی۔
عہدہ سنبھالنے کے بعد جیکسن سپریم کورٹ کی دوسری کم عمر ترین جج ہوں گی۔ ان سے کم عمر ایمی کونی بیرٹ کی عمر 50 برس ہے۔ یہ تیس برس میں پہلا موقع ہے کہ امریکی سپریم کورٹ میں کسی بھی جج کی عمر 75 برس سے زیادہ نہیں ہے۔
سینیٹ میں تین سیاہ فام ارکان میں سے ایک، ڈیموکریٹک پارٹی کے رافیل وارنک نے ووٹنگ سے پہلے بحث کے دوران کہا تھا کہ ’’میں ایک سیاہ فام لڑکی کا والد ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جنسی عدم مساوات اور نسل پرستی کی دوہری رکاوٹوں کے سامنے جج جیکسن نے کھڑے ہو کر آج جو کامیابی حاصل کی ہے اس کا کیا مطلب ہے۔ جج جیکسن کا سپریم کورٹ تک پہنچنا اس ترقی کے وعدے کا پورا ہونا ہے جس پر ہماری جمہوریت کی بنیاد ہے۔ یہ امریکہ کے لیے ایک بڑا دن ہے۔‘‘
امریکہ کے کونی سکول آف لا میں امی گرینٹ اینڈ نان سٹیزن رائٹس کلینک کی کو ڈائریکٹر اور قانون کی ایسوسی ایٹ پروفیسر نرمین ارستو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس کیٹانجی براؤن جیکسن کی بطور قانون دان قابلیت ان کی اس عہدے کی اہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن ایک سیاہ فام خاتون ہوتے ہوئے انہیں ایسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس سے غیر سیاہ فام خواتین پہلے سے ہی واقف ہیں، جس میں حد سے زیادہ مخالفت، قابلیت کو قبول نہ کرنا اور اس پر شبہات کا اظہار کرنا شامل ہے۔ بقول ان کے جسٹس جیکسن کا تمام مشکلات کے باوجود سپریم کورٹ کا حصہ بننا غیر سفید فام خواتین کی نوزائدہ قوت اور مضبوطی کا عکاس ہے ۔ انہوں نے جسٹس براؤن کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس تاریخی تقرری پر ملک کو مبارک باد دیتی ہیں اور ان نئے امکانات کو انکساری سے دیکھتی ہیں جن کے دروازے انہوں نے تمام غیر سفید فام خواتین کے لیے کھولے ہیں۔
امریکی سپریم کورٹ میں 1789 سے اب تک جن 115 افراد نے سپریم کورٹ میں بطور جج خدمات انجام دی ہیں ان میں سے محض تین افراد سفید فام نہیں تھے۔ ان میں سے دو سیاہ فام مرد تھے، جن میں سے کلیرنس تھامس اب بھی سپریم کورٹ کے جج ہیں جب کہ تھرگڈ مارشل سپریم کورٹ سے 1991 میں ریٹائر ہوئے اور 1993 میں وفات پا گئے تھے۔ واحد ہسپانوی جج سونیا سوٹومائیر بھی اس وقت سپریم کورٹ میں کام کر رہی ہیں۔ جیکسن امریکی سپریم کورٹ کی چھٹی خاتون جج ہوں گی۔