بھارت میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد کی صورتِ حال ابتر ہوئی ہے۔ مبصرین کے مطابق مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں میں منافرت کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بالخصوص 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد یہ کوشش تیز ہوئی ہے۔
حالیہ مہینوں میں ہندو سادھوؤں کے کئی پروگراموں میں ہندوؤں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی اور بعض مقررین کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کی کال دی گئی۔
رواں ماہ کی دو تاریخ سے لے کر اب تک متعدد ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے ہیں۔ ہندوؤں کا الزام ہے کہ ان کے مذہبی تہواروں کے موقع پر نکالے جانے والے جلوسوں پر مسلمانوں کے پتھراؤ کی وجہ سے یہ واقعات ہوئے۔
جب کہ مسلمانوں کا الزام ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں کے دوران ہتھیاروں کی نمائش ہوتی ہے۔ جان بوجھ کر جلوس مسلم علاقوں سے گزارے جاتے ہیں اور مسجدوں کے باہر رک کر اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے جب کہ مساجد میں داخل ہونے اور وہاں زعفرانی پرچم لہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں رام نومی کے جلوس کے دوران تقریباً ایک درجن ریاستوں میں پرتشدد واقعات ہوئے اور مسجدوں پر زعفرانی پرچم لہرانے کے واقعات پیش آئے۔
اس کے علاوہ شدت پسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر سے اذان اور حلال گوشت کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک عدالتی حکم سے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
گزشتہ دنوں راجستھان کے کرولی، مدھیہ پردیش کے کھرگون اور دہلی کے جہانگیر پوری میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔
کھرگون میں مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر فساد کرنے کے الزام میں مسلمانوں کی کم از کم 50 دکانوں اور مکانوں کو بلڈوزر سے منہدم کیا گیا۔ پولیس کے مطابق یہ کارروائی ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کے لیے کی گئی۔
دہلی کے جہانگیر پوری میں پولیس پر الزام ہے کہ اس نے یک طرفہ طور پر مسلمانوں کی گرفتاریاں کی ہیں۔ پولیس اس الزام کی تردید کرتی ہے۔ وہاں بھی تشدد کے بعد مبینہ ناجائز تجاوزات ہٹانے کی مہم شروع ہوئی جس پر فی الحال سپریم کورٹ نے پابندی عائد کر دی ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ آر ایس ایس سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ بھارت کو ہندو اسٹیٹ بنانے کا وقت آ گیا ہے اور یہ ساری سرگرمیاں اسی مقصد سے کی جا رہی ہیں۔ تاہم حکومت کے بعض ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ہے اور حکومت آئین کے تحت چل رہی ہے۔
ستر برس سے دہلی میں رہائش پذیر 87 سالہ مودود صدیقی کہتے ہیں کہ انہوں نے اس سے قبل ایسے حالات کبھی نہیں دیکھے۔ وہ 17 سال کی عمر میں یوپی کے شہر امروہہ سے دہلی آئے تھے۔ وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عوام نے بٹوارے کے بعد لگے فسادات کے زخموں کو بھلا دیا تھا اور وہ مل جل کر رہ رہے تھے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پہلے مسلمان ہندوؤں کے تہواروں جیسے کہ دیوالی اور ہولی پر ان کو مبارک باد پیش کرتے تھے اور ہندو مسلمانوں کے گھروں میں مٹھائیاں تقسیم کیا کرتے تھے۔ دیوالی کے موقع پر چھوڑی جانے والی آتش بازی میں مسلمان بھی شریک ہوتے تھے۔
مختلف اخبارات و رسائل میں ادارتی و انتظامی فرائض انجام دینے والے مودود صدیقی کے بقول انہوں نے ساٹھ کی دہائی میں دیکھا تھا کہ عید الفطر کے موقع پر جب مسلمان جامع مسجد سے نماز عید ادا کرکے گیٹ سے باہر آتے تھے تو وہاں ہندو ہار لیے کھڑے ہوتے تھے جو مسلمانوں کے گلے میں ڈالے جاتے۔ اسی طرح یوم عاشورہ پر نکلنے والے جلوس میں ہندو سڑکوں کے کنارے شربت کی سبیلیں لگاتے اور تعزیہ کے جلوس میں شرکت کرتے۔
پرانی دہلی کے رہائشی اور صحافی وویک شکلا جہاں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ حالات خراب ہوئے ہیں، وہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ ضروری نہیں کہ یہاں ہمیشہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی رہے۔ ان کے بقول صرف بھارت ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تعصب صرف ہندوؤں میں ہی نہیں بلکہ مسلمانوں میں بھی بڑھا ہے۔ چند سال قبل پرانی دہلی کے سیتا رام بازار میں واقع درگا مندر کو مسلمانوں نے توڑ دیا تھا۔
مودود صدیقی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک طبقے میں بھی غیر مسلموں کے لیے متعصبانہ رجحان پیدا ہوا ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ حالات رہے ہوں۔
وویک شکلا اور مودود صدیقی دونوں کا کہنا ہے کہ یہ سب سیاست کی کارفرمائی ہے ورنہ سب مل جل کر رہنا چاہتے ہیں۔
سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ سیاست میں مجرمانہ اور مسلم مخالف ذہنیت کے لوگوں کی آمد کی وجہ سے بھی حالات بگڑے ہیں۔ اگر اس رجحان کو روکا گیا ہوتا تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔
مبصرین کے مطابق جب سے سیاست میں مذہب کا عمل دخل بڑھا ہے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا ہے۔ ایودھیا کی بابری مسجد کا معاملہ ہو یا بنارس کی گیان واپی مسجد کا یا پھر متھرا کی شاہی عید گاہ کا۔ ان عبادت گاہوں کے خلاف چلائی جانے والی مہم نے سماجی اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں مسلم حکمرانوں نے بہت سے مندروں کو منہدم کیا تھا، جن کو وہ واگزار کرانا چاہتے ہیں۔ جب کہ بعض تاریخ داں اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ایودھیا کی بابری مسجد کی اراضی رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو دے دی تھی اور مسلمانوں کو دوسرے مقام پر پانچ ایکڑ اراضی الاٹ کی ہے۔
سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ 1980 کی دہائی میں شروع ہونے والی رام مندر تحریک نے ہندوؤں کے اندر رفتہ رفتہ مسلمانوں کے خلاف منافرت کا زہر بھرنا شروع کیا۔ کئی دہائیوں تک چلائی گئی مہم اب کامیاب ہو گئی ہے اور ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ مسلمانوں سے نفرت کرنے لگا ہے۔
مودود صدیقی کے مطابق قیامِ پاکستان کی آڑ میں بھی مسلمانوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ غیر مسلموں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ بھارت کا بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر ہوا تھا اس لیے یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
ادیبہ اور درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا دو قسم کے تجربات سے گزری ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) افسر تھے اور وہ زیادہ تر راجستھان کے مختلف شہروں میں تعینات رہے۔ انہوں نے اپنا بچپن غیر مسلموں کے درمیان گزارا لیکن کبھی بھی انہیں کسی امتیازی رویے کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
وہ شادی کے بعد دہلی آگئیں اور درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو گئیں۔نعیمہ جعفری پاشا جب تک جنوبی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے جامعہ نگر میں رہیں، انہیں کسی ناخوشگوار واقعے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ البتہ جب انہوں نے ہندو اکثریت والی کالونی سریتا وہار میں سکونت اختیار کی تو وہاں ان کو عدم تحفظ کا احساس ہوا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وہ بتاتی ہیں کہ ان کے مرحوم شوہر باریش مسلمان تھے، اس لیے بہت سے رکشہ والے ہمیں اپنے رکشے میں بٹھانے سے انکار کر دیتے تھے اور یہاں تک کہتے تھے کہ ہمیں اپنا رکشہ گندا نہیں کرنا۔
اس سے قبل بھی دہلی میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ کبھی انہیں کرائے پر مکان دینے سے انکار کر دیا گیا تو کبھی ان پر دہشت گرد اور پاکستانی ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔
نعیمہ جعفری پاشا اب غیر مسلم اکثریت والی ایک دوسری کالونی جسولہ فلیٹس میں مقیم ہیں تو وہاں بھی بقول ان کے، ان کو امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے مکان کے بالکل عقب میں غیر مسلموں کی اکثریت والی کالونی جسولہ گاؤں ہے۔ جب کہ وہیں قریب میں شاہین باغ میں شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مسلم خواتین دھرنے پر بیٹھی تھیں، تو اس وقت ہندوؤں کے ایک طبقے کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف کافی اشتعال انگیزی کی جاتی تھی۔ اس وقت بھی انہیں عدم تحفظ کا احساس ہوا تھا اور انہوں نے اپنے مکان کی عقبی دیوار پر خاردار تاروں کی باڑ لگوا لی تھی۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد شدت پسندوں کے حوصلے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ نعیمہ پاشا اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انتخابات کے بعد وہاں کا ماحول اورخراب ہوا ہے۔
نعیمہ جعفری کے مطابق رام مندر تحریک کی وجہ سے جو زہر دھیرے دھیرے ہندو سماج میں سرایت کر رہا تھا، وہ اب پوری طرح چڑھ گیا ہے۔ پہلے صرف ایک عبادت گاہ کا معاملہ تھا لیکن اب مسلمانوں کی شناخت کے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔
بعض لوگ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ رام مندر تحریک دراصل مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھی، جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ وویک شکلا کے مطابق اگر 500 سال قبل کوئی مندر توڑا گیا تھا تو آج اس کو اچھالنے اور اس کی سزا غریب مسلمانوں کو دینے کا کیا جواز ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے متنازع معاملات کو اچھال کر اسلاموفوبیا کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔
لیکن وویک شکلا اور مودود صدیقی دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح اس صورتِ حال سے مایوس نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہے تو حالات بدل سکتے ہیں البتہ حکومت سیاسی مفاد پرستی کی خاطر شدت پسند ہندو تنظیموں کی سرگرمیوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔
وویک شکلا مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہلی کے کناٹ پلیس کے نزدیک کستوربا گاندھی مارگ پر عین سڑک کے درمیان ایک بڑی مسجد ہے جس کے امام مولانا عمیر الیاسی ان کے دوست ہیں۔ دو روز قبل انہوں نے نمازِ عصر کے بعد اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ وہاں جا کر ان سے ملاقات کی اور وہ وہاں افطار اور مغرب کی نماز کے بعد کافی دیر تک رہے۔
ان کے بقول مولانا عمیر الیاسی نے بتایا کہ وہاں آس پاس میں مسلمانوں کی آبادی 10 فی صد بھی نہیں ہے۔ افطار کے لیے مختلف قسم کے پھل، دودھ اور شربت سب ہندوؤں کے گھروں سے آتے ہیں۔ ان کے سامنے بھی کئی ہندو پھل لے کر آئے۔لہٰذا مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
حالیہ برسوں میں اترپردیش میں کئی ایسے شہروں کے نام بدلے گئے ہیں جن سے مسلم شناخت کا اظہار ہوتا تھا۔ دوبارہ اقتدار میں واپس آنے کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے 12 شہروں کے نام بدلنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اعلان جلد ہی کیا جائے گا۔
شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے آگرہ کا نام بھی بدلنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاج محل دراصل ایک مندر تھا جس کا نام ’تیجو محل‘ تھا۔
آگرہ کی سکندرہ بودلا روڈ پر واقع اِن اینڈ آوٹ ڈپارٹمنٹل اسٹو رکے مالک محمد اقبال کہتے ہیں کہ آگرہ یا تاج محل کے ناموں کے بدلنے سے متعلق بیانات کا وہاں کے عوام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وہ اس بات کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کے موجودہ ماحول کا اثر آگرہ پر بھی کچھ نہ کچھ پڑا ہے لیکن اب بھی وہاں فرقہ وارانہ یگانگت کا ماحول ہے۔
ان کے مطابق ان کے اسٹور کے پاس غیر مسلموں کی آبادی ہے اور ان کے 90 فی صد گاہک ہندو ہیں۔ وہ باریش مسلمان ہیں اور اسٹور میں نماز بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن کبھی بھی کسی غیر مسلم نے ان کے کسی عمل پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ مسلمانوں کے تہوار پر ہندو صارفین انہیں مبارک باد دیتے ہیں۔ اسی طرح وہ بھی ہندوؤں کے تہوار پر اپنے اسٹور میں رعایتی اسکیم چلاتے ہیں۔
مودود صدیقی بتاتے ہیں کہ آج سے تین چار دہائی قبل تک رمضان میں افطار کے وقت ہندوؤں کے گھروں سے بھی افطاری مسجدوں میں بھیجی جاتی تھی اور مغرب کی نماز کے بعد بہت سی ہندو خواتین بھی اپنے بچوں کو نمازیوں سے دعا کرانے کے لیے باہر کھڑی رہتی تھیں۔ لیکن اب یہ منظر دیکھنے کو نہیں ملتا۔ لیکن وویک شکلا کا کہنا ہے کہ اب بھی یہ صورتِ حال کسی حد تک موجود ہے۔
مودود صدیقی کہتے ہیں کہ شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے اور بھارت کو ہندو اسٹیٹ بنانے کی کوشش تو کی جا رہی ہے لیکن یہاں کے عوام کا جو مزاج ہے اس کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔