وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کو شامل نہ کرنے سے سیاسی و صحافتی حلقوں میں مختلف چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔حکومتی اتحاد میں شامل رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑنے دعویٰ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اعتراض کی وجہ سے انہیں کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کا بھی کہنا ہے کہ نئے حکومتی اتحاد میں ابھی سے اختلافات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ اتحاد کسی صورت دیر پا ثابت نہیں ہو سکتا۔
البتہ رکن قومی اسمبلی اور حکومتی اتحاد میں شامل نیشنل ڈیموکریٹک موومںٹ کے سربراہ محسن داوڑ کہتے ہیں کہ ابھی اس قسم کے دعوے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ وزیراعظم شہباز شریف کو وقت دینا چاہیے۔ ان کے مطابق ملک بھر کی اہم اور مؤثر سیاسی قوتیں شہباز شریف کے ساتھ ہیں اور مخلوط حکومت کو وقت دیا جائے تو یہ بہت کچھ کرسکتی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے مرکزی سیکریٹری جنرل ساجد ترین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ دالبندین اور نوکنڈی میں پیش آئے واقعات پر وہ احتجاجاً کابینہ میں شامل نہیں ہوئے۔ تاہم پارٹی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کابینہ میں شامل ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، نیشنل ڈیموکریٹک مومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی کردار ادا کیا تھا جس کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ ان جماعتوں کو بھی وفاقی کابینہ یا صوبائی حکومتوں میں شامل کیا جائے گا۔ مگر منگل کو ایوانِ صدر میں وزرا کی تقریبِ حلف برداری میں ان جماعتوں کے نمائندے شامل نہیں تھے۔
شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کہتے ہیں کہ'' اسٹیبلشمنٹ کے اعتراض کے باعث انہیں کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا اور فیصلے پر مجھے یا میری جماعت کو کسی قسم کا افسوس نہیں۔"
ان کے بقول وزیر اعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت کو موقع دینا چاہیے کہ وہ موجودہ معاشی، سیاسی، سماجی سیکیورٹی اور انتظامی مسائل حل کرے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد آپ سے کابینہ میں شامل ہونےکا کہا گیا تھا؟محسن داوڑ نے ہاں میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''ہم نے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے از خود کہا تھا۔تاہم بعد میں انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ والے اعتراض کر رہے ہیں۔''
محسن داوڑ کے بقول وزیر اعظم شہباز شریف کو ملک بھر کی اہم سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اسی قسم کی سیاسی حمایت ان کے بقول 2008 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل تھی جس کے نتیجے میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے صورت میں ایک بڑی کامیابی سامنے آئی تھی ۔
محسن داوڑ کہتے ہیں شہباز شریف کی حکومت کو پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت العلماء اسلام (ف)سمیت ترقی پسند اور قوم پرست جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔لہٰذا ان سے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کےلیےبہت سی توقعات وابستہ ہیں۔
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ کے دعوے پر حکومت یا وزیراعظم کےدفتر کی جانب سے کسی قسم کی وضاحت یا تردید سامنے نہیں آئی۔
ادھرعوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ ان کے سربراہ اسفندیارولی خان نے از خود کابینہ میں شامل ہونے سے معذرت کی ہے۔
اسفند یار ولی کا کہنا ہے کہ ''ہماری ترجیحات حکومت نہیں عوام ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مشکور ہیں جنہوں نے پارٹی کے ساتھ رابطہ کرکے وفاقی حکومت کا حصہ بننے کے لیے مدعو کیا لیکن ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے تجویز دی کہ باقی اتحادیوں کو وفاقی کابینہ میں جگہ دیں۔''
پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات زاہد خان کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اے این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ''ملک اور حکومت پہلے سے مشکلات سے دوچار ہیں۔ ہم مزید مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری ترجیح حکومتی عہدے نہیں بلکہ عوام، پارٹی اور نظریہ رہے ہیں۔''
انہوں نے کہا کہ ہماری پوری توجہ اس وقت پارٹی کو مزید منظم اور فعال بنانا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت قوم کو اس مشکل گھڑی سے نکالے گی۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ میں پارٹی نے اسفندیارولی خان کے فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے شامل ہونے سے معذرت کی۔ البتہ ان کی جماعت وفاقی حکومت کے ساتھ ملک اور قوم کو درپیش مسائل اور مشکلات سے نکالنے کےلیے تعاون جاری رکھے گی۔
انہوں نےکہا کہ'' اے این پی کا اصل مقصد عمران خان کی نا اہل حکومت کا خاتمہ تھا۔''
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل ساجد ترین ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں کہا کہ سرحدی علاقوں نوکنڈی اور دالبندین میں سیکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن بنانے کے مطالبے اور احتجاج کے باعث پارٹی نے کابینہ اور تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اب جب کہ حکومت نے کمیشن بنایا ہےتو پارٹی کے اجلاس میں کابینہ میں شمولیت کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
ساجد ترین کے بقول انہیں ''وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں درپیش بہت سے مسائل اور مشکلات کے لیےتوقعات وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف ایک منجھے ہوئے سیادت دان اور تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر ہیں اور وہ بہت کچھ کریں گے۔''
قبل ازیں بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں خطاب میں کہا تھا کہ حکومت فوری انتخابات کا انعقاد کرے۔
اس کے علاوہ انہوں نے حکومت سے بلوچستان کے مختلف سرحدی علاقوں میں حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کمیشن بنانے کامطالبہ کیا تھا۔
علاوہ ازیں پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منگل کو وزیر خارجہ کا حلف نہیں اٹھایا۔ اگرچہ وہ حلف برداری کی تقریب میں موجود تھے مگر انہوں نے حلف نہیں لیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ قوم پرست اور ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے کابینہ یا حکومت میں شامل ہونے کے لیے صلاح مشورہ کرنے کے لیے لندن جا رہے ہیں۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نےمنگل کی رات ایک نجی ٹیلی ویژن پر گفتگو میں کہا کہ بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر نامزد وزراء بہت جلد حلف اٹھا کر عہدوں پر کام شروع کردیں گے۔
البتہ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے والد کے عہدہ صدارت اور پنجاب کے گورنر کے عہدے کے حصول کے لیے لندن جا رہے ہیں۔
سینئر صحافی عرفان خان کا کہناہے کہ اگر سلیم صافی کا مؤقف صحیح ہے اور نواز شریف اس سے انکار کردیتے ہیں تو پھر مخلوط حکومت کا مستقبل خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔