افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے زوال کے بعد طالبان جنگجوؤں کو سات ارب ڈالر سے زائد مالیت کا امریکی فوجی ساز وسامان ہاتھ لگا تھا۔ اس ہفتے امریکی قانون سازوں کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں پینٹاگان نے اس بات کی تصدیق کردی ہے۔
یہ تفصیلات جو سب سے پہلے سی این این نے رپورٹ کیں، ان سے اُن کوششوں کا اندازہ ہوتا ہے جو واشنگٹن نے افغانستان کی فوج کو طالبان ، القاعدہ اورداعش جیسے دہشت گرد گروپوں کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لیے کیں۔
رپورٹ میں تیس اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الااقوامی ائرپورٹ سے آخری امریکی فوجی کے روانہ ہونے کے بعد طالبان کے ہاتھ لگنے والے ساز وسامان کی مالیت کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار پانچ سے سن دو ہزار اکیس تک افغان فوج کو فراہم کیے گئے اٹھارہ ارب ساٹھ کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیار اور سازوسامان میں سےصرف سات ارب ڈالر کا سامان وہاں باقی رہ گیا تھا۔
محکمہ دفاع کے ترجمان میجر روب لوڈویک کے مطابق اس میں ہوائی جہاز، گاڑیاں، گولہ بارود، بندوقیں اور مواصلاتی ساز وسامان کے ساتھ مرمت کے قابل دیگر سامان بھی شامل تھا۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ یہ سامان افغان حکومت کی ملکیت تھا جو اب ختم ہوچکی ہے۔
میجر لوڈویک نے کہا کہ کانگریس کو دی گئی ان کے محکمے کی حالیہ رپورٹ میں افغان فوج کو دیے گئے سات ارب بارہ کروڑ ڈالر کے کے سامان کے اعداد وشمار پیش کیے گئے ہیں امریکی فوج کے نہیں۔ہماری فورسز کے زیر استعمال فوجی سازوسامان تقریبا تمام کاتمام یا تو واپس بھیج دیا گیا ہے یا تباہ کردیا گیا ہے۔
امریکہ کے اعلیٰ دفاعی عہدیداروں کو بار بار بعض ایسے اعلیٰ سطحی اراکین کانگریس کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے جو امریکی انخلا اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کے زوال کے احتساب کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سرکردہ ریپبلکن سینیٹر جم انہوف نے گزشتہ ستمبر میں وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے کہا کہ ہم سب نے صدر کے یکطرفہ فیصلے کے خوفناک نتائج دیکھے حالانکہ اس طرح کی صورتحال سے بچا جاسکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہوا وہ پہلے سے ہی نظر آرہا تھا ، صدر بائیڈن اور ان کے مشیروں نے کمانڈرز کی بات نہیں سنی، انھوں نے کانگریس کی بات نہیں سنی اور یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے جب کہ سبھی کو اندازہ تھا کہ کیا ہوگا۔
تاہم دفاعی حکام نے جمعرات کو فوج کے اقدامات کا دفاع کرنے اور پیچھے رہ جانے والے سات ارب ڈالر کے امریکی سازوسامان اور ہتھیاروں کی اہمیت کوکم کرنے کی کوشش کی، جن میں سے کچھ کو طالبان جنگجوؤں نے بعد ازاں اعلانیہ طور پر پیش بھی کیا۔
اس رپورٹ پر جو ابھی عام لوگوں کے لیے جاری نہیں ہوئی، وی او اے سےبات کرتے ہوئے امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اس وقت ہم نہیں بولے کیونکہ یقیناً ایسا ہی ہورہا تھا ، لیکن اہلکار نے واضح کیا کہ طالبان جو اسلحہ استعمال کررہے ہیں وہ ویسا نہیں ہے جیسا وہاں امریکی اور اتحادی افواج ملک چھوڑنے سے پہلے استعمال کرتی رہے ہیں ۔ان کہا کہنا تھا کہ یہ جدید ترین چیزیں نہیں ہیں، ہم نے جو کچھ افغان فورسز کو فراہم کیا وہ ہماری یا ہمارے اتحادیوں کی سطح کے معیار کا نہیں ہے۔
اہلکار نے یہ بھی کہا کہ اعلیٰ درجے کے سازوسامان سے بھی طالبان کی قوت کو زیادہ فروغ حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ درجے کا سامان، ہوائی جہاز، بغیر پائلٹ فضائی نظام (ڈرونز) اور ہدف کو نشانہ بنانے والے ہتھیاروں کا انحصار مرمت اور دیکھ بھال پر ہے، جس کے بغیر ان میں سے کوئی بھی نظام چل نہیں سکے گا۔
پینٹاگان کے حکام نے وی او اے کو یہ بھی بتایا کہ جب امریکی فوجی افغانستان سے روانہ ہوئے تو ان کی ملکیت کارآمد آلات کا صرف ایک معمولی حصہ وہاں باقی رہ گیا تھا جس کی مالیت کا تخمینہ صرف پندرہ کروڑ ڈالر ہے اور اسے بھی یا تو تباہ کردیا گیا تھا یا وہ پہلے ہی سے ناقابل استعمال تھا۔