امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا فیصلہ ''درست اور قومی مفاد میں ہے''۔ صدر بائیڈن نے یہ بات واشنگٹن میں انفرا سٹرکچر کی تعمیر نو کے لئے امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن جماعت کے سینیٹرز کی رائے سے متفقہ طور پر منظور ہونے والے بل کے بارے میں بات کرتے ہوئے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہی۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ 20 برس تک افغانستان میں فوج تعینات رکھنے کے لئے امریکہ کو کئی ٹریلین ڈالر سے زیادہ کے اخراجات برداشت کرنے پڑے، جب کہ لڑائی کے دوران ہزاروں امریکی فوجیوں نے جان کی بازی بھی ہار دی۔ ساتھ ہی، انھوں نے کہا کہ افغانستان کی 300000 سیکیورٹی فورسز کو بہترین فوجی تربیت اور درکار اسلحہ اور رقوم فراہم کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان فوج اب اس قابل ہے کہ طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ کرسکے۔ علاوہ ازیں، انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ضرورت پڑنے پر امریکہ افغان حکومت کو درکار فضائی مدد فراہم کرتا رہے گا۔
'طاقت کے زور پر کسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا'
افغانستان مفاہمت کے عمل کے لئے امریکہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے منگل کے روز طالبان کو انتباہ کیا کہ افغانستان میں طاقت کے زور پر آنے والی کسی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
خلیل زاد قطر کے صدرمقام دوحہ میں عسکری گروپ کو یہ بتائیں گے کہ میدان جنگ میں فتوحات حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ کابل کو بندوق کے ذریعے حاصل کرنےسے یہ ضمانت نہیں ملے گی کہ ان کی حکومت کو عالمی سطح پر قبول کر لیا جائے۔
انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ایسے میں جب کہ امریکہ اور نیٹو ممالک اپنا فوجی انخلا مکمل کر رہے رہیں، طالبان رہنما افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے دوبارہ مل بیٹھیں گے۔
افغانستان کے معاملے پر قطر مذاکرات میں کیا ہوگا؟
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ایاز گل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ افغان امن عمل کے لیے امریکہ کے خصوصی سفارت کار زلمے خلیل زاد اور روس، چین اور پاکستان کے نمائندے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقات کرنے جا رہے ہیں، جسے وسیع تر سہ فریقی کانفرنس کہا گیا ہے۔
واضح رہے کہ قطر میں اس ہفتے دو بین الاقوامی کانفرنسیں ہو رہی ہیں جن کا مقصد افغانستان میں لڑائی میں مصروف فریقوں پر زور دینا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آئیں اور کسی امن سمجھوتے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔
یہ سفارتی کوششیں ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب طالبان عسکریت پسند میدان جنگ میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف اس کے باوجود ڈرامائی کامیابیاں حاصل کررہے ہیں کہ انہیں امریکی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔
کانفرنس سے چند ہی روز قبل اقوام متحدہ نے انتباہ جاری کیا تھا کہ افغانستان کی جنگ ایک نئے ہلاکت خیز اور زیادہ تباہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔
ان سہ فریقی کانفرنسوں کی شروعات ماسکو نے کی تھی۔ اس کا مقصد بین الافغان بات چیت میں مدد فراہم کرنا ہے تاکہ اس تنازع کے فریقوں کو کسی ایسے سیاسی بندوبست پر پہنچنے میں مدد فراہم کی جائے جس سے پائیدار اور جامع جنگ بندی کی راہ ہموار ہو سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ توسیعی مذاکراتی گروپ دوحہ میں طالبان کے سیاسی قائدین اور افغان حکومت کے نمائندوں سے ملاقات سے قبل آپس میں مشاورت کرے گا، جب کہ ایک اور اجلاس میں افغانستان کے قریبی ہمسایہ ملکوں، روس، امریکہ اور اقوام متحدہ کے وفود شریک ہوں گے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دونوں اجلاسوں کا مقصد افغانستان کے دو حریفوں کے درمیان مشترکہ پہلو ڈھونڈنا ہے، تاکہ انہیں مفاہمت کی جانب لایا جا سکے۔ یہ کوششیں ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب طالبان نے تیزی سے ملک کے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی سفارت کار محمد صادق اور کابل میں پاکستان کے سفیر منصور خان افغانستان کے امن سے متعلق ان اجلاسوں میں شرکت کے لیے دوحہ پہنچ رہے ہیں۔
افغان امن عمل کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی خلیل زاد نے گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ہمیشہ ایسے راستے ڈھونڈنے کی جستجو میں رہتے ہیں جس سے امن بات چیت کو تیز کرنے میں مدد مل سکے، کیونکہ ہمیں افغانستان میں جاری جنگ کا کوئی فوجی حل نظر نہیں آتا۔
ان کا کہنا تھا کہ "پائیدار امن کے لیے ہمیں ایک سیاسی حل اور سیاسی سمجھوتے پر پہنچنا ہو گا۔ ہم اس پر قائم ہیں اور اس وقت تک اس سے وابستہ رہیں گے جب تک یہ مقصد حاصل نہیں ہو جاتا"۔