ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کے ترجمان نے کہا ہے کہ سینٹری فیوج مشینوں کے بڑے حصوں کو کرج سے ایک دوسرے محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی وجہ اس جوہری تنصیب پر ہونے والا دہشت گرد حملہ تھا۔
سینٹری فیوج مشین یورینیم کو افزدوہ بنانے کے کام آتی ہے۔
اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے جمعرات کو کہا تھا کہ ایران نے اپنی ایک نئی ورکشاپ کو نطنز کے ایک زیر زمین مقام پر منتقل کر دیا ہے ۔ اس ورکشاپ میں سینٹری فیوج مشینوں کے پرزے بنائے جاتے ہیں۔
تہران کے مغرب میں واقع کرج کی تنصیب کو اب بند کر دیا گیا ہے جس کے متعلق ایران کا کہنا ہے کہ گزشتہ جون میں اسرائیل کی جانب سے سبوتاژ کے نتیجے میں اسے نقصان پہنچا تھا۔
ایران کے میڈیا کے مطابق ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمالوندی نے کہا ہے کہ ٹی ای ایس اے کرج کمپلکس کے خلاف دہشت گرد کارروائی کی وجہ سے ہمیں اپنی سیکیورٹی سخت کرنا پڑی اور سینٹری فیوج مشینوں کے ایک اہم حصے کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کرنا پڑا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ جوہری توانائی کا عالمی ادارہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف کی جانے والی “شیطانی کارروائیوں” پر دھیان نہیں دے رہا۔
جوہری توانائی کے عالمی ادارے نے دو ہفتے قبل اپنے رکن ممالک کو آگاہ کیا تھا کہ ایران نے اپنی سینٹری فیوج سے متعلق مشینوں کو نطنز میں منتقل کر دیا اور یہ نہیں بتایا کہ انہیں وہاں کس مقام پر نصب کیا جائے گا۔
گروسی نے جمعرات کے روز ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ منتقل کی جانے والی ورکشاپ کو یورینیم کو افزدوہ کرنے والے پلانٹ میں ایک زیر زمین ہال میں نصب کر دیا گیا ہے۔انہوں نے اس منتقلی کی وجوہات کے متعلق کوئی تفصیل نہیں دی۔لیکن سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پلانٹ سطح زمین سے تقریباً تین منزلیں نیچے ہے، جس کی وجہ امکانی طور پر اسے فضائی حملوں سے محفوظ رکھنا ہے۔
پچھلے سال کے دوران ایران نے ویانا میں عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرانے کے لیے مذاکرات میں حصہ لیا۔ یہ معاہدہ 2018 میں اس وقت تعطل کا شکار ہو گیا تھا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران کے خلاف دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔
اس جوہری معاہدے میں ایران کو اقتصادی پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنا جوہری پروگرام ایک کم تر سطح تک محدود کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔
مذاکرات کے متعدد ادوار کے بعد مارچ میں جب معاہدہ بحال ہونے کے قریب پہنچا تو آخری لمحات میں روس کی جانب سے اٹھائے جانے والے مطالبات اور ایران کا اپنے عسکری ونگ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کے اصرار کے بعد وہ دوبارہ تعطل میں پڑ گیا۔