تحریک انصاف کی رہنما، پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی رکن اور سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے، ذرائع ابلاغ کے مطابق، اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ادارے کی کمشنر مشیل بیشلے کو خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عالمی ادارہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان اور پارٹی کے دیگررہنماوں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات کے معاملے میں مداخلت کرے۔
سابق وزیر نے اپنے خط میں موجودہ وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ کی تقرری پر بھی سخت تنقید کی ہے۔ حکومتی عہدیدار شیریں مزاری کی طرف سے خط لکھے جانے کی مذمت کر رہے ہیں اور اسے بیرونی دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق شیریں مزاری نے اپنے خط میں کہا ہے کہ عمران خان کی قیادت والی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ اور ان کی حکومت کو شبہاز شریف کی قیادت والی حکومت سے تبدیل کیا گیا ہے جن پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے متعدد مقدمات ہیں اور وہ ضمانت پر ہیں۔
شیریں مزاری نے اپنے خط میں عمران خاں کا وہ بیانیہ بھی تحریر کیا ہے جس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کو حکومت سے ہٹانے کے لیے امریکہ کی حمایت سے ایک سازش کی گئی جس میں اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن پارٹیوں نے کردار ادا کیا۔
انہوں نے تحریر کیا ہے کہ عمران حکومت کے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک شروع کیے ہوئے ہیں اور ملک بھر میں بڑی ریلیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔سابق وفاقی وزیر کے بقول موجودہ حکومت جس کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، جابرانہ اقدامات کے ذریعے جواب دے رہی ہے۔
’’ ایک تو یہ کہ سرکاری میڈیا پر (تحریک انصاف کا) بلیک آوٹ ہے اور تقریباً تمام نجی ٹی وی چینلز کو اشتہارات کے لالچ اور اسٹیبلشمنٹ کی چھڑی کے ذریعےڈرا کر کوریج سے روکا جا رہا ہے۔ اور اس صورتحال میں حکومتی کنٹرول والے ادارے پی ٹی سی ایل نے جو پرائیویٹ کیبل کونیکشنز کو کنٹرول کرتا ہے، ہر اس ٹی وی چینل کو رسائی نہیں دی جو عمران خان کے جلسے جلوس دکھاتا ہے‘‘شیریں مزاری نے جو دوسری شکایت اپنے خط میں تحریر کی ہے، اخبار ڈان کے مطابق، وہ یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے راہنماوں کے خلاف مسجد نبوی میں پیش آنے والے اس واقعے کے پس منظر میں اہانت مذہب کے مقدمے درج کیے جا رہے ہیں جس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وزرا پر چند پاکستانی زائرین آوازے کس رہے تھے۔ انہوں نے اس خط میں بالخصوص رانا ثناءاللہ کی بطور وزیرداخلہ تقرری پر اعتراض اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ ماڈل ٹاون میں شہریوں کے قتل کے ملزم اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔
شیریں مزاری کے اس خط پر حکومت میں شامل وزراء تنقید کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما اور وزیر مملکت مصدق ملک نے کہا ہے کہ وہ کس منہ سے بیرون ممالک خط لکھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا شیریں مزاری کے اقوام متحدہ کو لکھے گيے خط میں شکایت نہیں بلکہ پی ٹی آئی کو بچانے کی اپیل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے عمران حکومت کے خلاف سازش کی اور دوسری طرف اقوام متحدہ کو درخواست بھجوائی جاتی ہے۔
وفاقی وزیر نذیر تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ مسجد نبوی میں ہونے والے واقعے کے مقدمات ریاست پاکستان کی طرف سے درج نہیں کیے گئے۔ وزارت قانون اس سارے واقعہ کا جائزہ لے رہی ہے۔
وزیر قانون کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران حکومت کو آئینی طریقے سے ختم کیا گیا اور اب اس کے کرپشن کے اسکینڈل سامنے آرہے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان افراد کو قطعی طور پر معافی نہیں دی جا سکتی۔
وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شیریں مزاری کے خط سے بیرون ملک پاکستان کی بدنامی ہو گی۔
توہین مذہب کے قانون کے متنازعہ استعمال پر رائے
قبل ازیں وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ مسجد نبوی میں پیش آنے والا واقعہ صدی کا بدترین واقعہ ہے ۔ مسلمانوں کے لیے اس مقدس مقام پر سیاسی نعرے بازی قطعی طور پر نا پسندیدہ عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے یہ نعرے بازی کسی بھی راہنما کے خلاف ہو، اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں میاں نواز شریف کے حق میں لگنے والے نعرے بھی درست عمل نہیں تھا ۔
حافظ طاہر اشرفی سابق وزیراعظم عمران خان کے بھی مشیر رہے ہیں اور ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی بننے والی حکومت کا بھی حصہ ہیں۔ اس اعتبار سے ان کا شمار ایسے افراد میں ہوتا ہے جو سخت کشیدہ سیاسی ماحول میں تحریک انصاف اور اتحادی حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ توہین مذہب کا قانون ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ علماء کونسل کے وفد نے وزیر داخلہ رانا ثنا ءاللہ سے اسی معاملے پر ملاقات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ توہین مذہب اور توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہو گا اور نہ ہی ہم اس کی تائید کر سکتے ہیں۔
ان کے بقول رانا ثناءاللہ کا موقف تھا کہ عمران خان یا ان کی پارٹی کے راہنماوں کے خلاف مقدمات عام عوام کے دباو پر دائر ہوئے کہ لوگ تھانوں کے باہر آ گئے تھے۔ جہاں تک عمران خان پر ایف آئی آر ہے، ہماری بات رانا ثنا ءاللہ سے طے ہوئی ہے کہ جس شخص کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، اس پر توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ دائر نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ایف آئی آر یا اس طرح کی چیزیں جب متحدہ علما بورڈ کے پاس آئیں گی، تو قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔
اس سوال پر کہ آیا وہ سیاسی کشیدگی میں کمی کے لیے کوئی کردار ادا کر رہے ہیں، حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ ’’ ہم تو کہتے آ رہے ہیں کہ میثاق پاکستان کر لیں ‘‘۔
محمد حسن الیاس، امریکہ میں مقیم ہیں اور اسلامی فقہ اور عربی زبان کے ریسرچر ہیں اور معروف سکالر جاوید احمد غامدی کے ادارے ’ المورد‘ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہتے ہیں کہ مذاہب کا احترام پیدا کرنے کے لیے استدلال اور گفتگو ہی بہترین ذریعہ ہیں نہ کہ قوانین۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت سیاست کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے وہ توہین مذہب کے قوانین کا بدترین استعمال ہے۔اس سے مذہب کو فائدہ نہیں نقصان پہنچے گا۔