اس وقت دنیا کے اکثرملکوں کو افراطِ زر اور اس کےباعث بڑھتی ہوئی مہنگائی کے چیلنج کا سامنا ہے۔ عالمی وبا کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے اس عالمی مسئلے کو یوکرین پر روس کے حملے نے مزید بگاڑ دیا ہے۔ امریکہ کے لیبر ڈیپارٹنٹ کے مطابق ملک میں افراطِ زر کی شرح ساڑھے آٹھ فی صد ہے جو 40 سال کی بلندترین سطح ہے۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو بیورو آف اسٹیٹسکس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افراط زر کی موجودہ شرح 13 فی صد کے لگ بھگ ہے۔
افراطِ زر کرنسی کی قوتِ خرید کم ہو نے کو کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور آپ کو پہلے کے مقابلے میں انہیں خریدنے پر زیادہ رقم صرف کرنا پڑتی ہے۔
مالیاتی امور کے ماہرین کے مطابق اپنے اخراجات سے متعلق بہتر منصوبہ بندی کرکے افراطِ زر سے پیدا ہونے والی مہنگائی کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
امریکہ کی مالیات سےمتعلق ایک مشاورتی فرم رسل اینڈ کمپنی کے سی ای او والٹر رسل کہتے ہیں کہ اس وقت اپنی مالیاتی حکمت عملی کو از سر نو ترتیب دینے کا وقت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت افراط زر پر کنڑول کرنے کے لیے مرکزی بینک سے مدد لیتی ہے جو عموماً بنیادی شرح سود میں اضافہ کر دیتا ہے جس سے سرمائے کی فراہمی میں کمی آ جاتی ہے اور خریداریوں پر دباؤ گھٹ جاتا ہے، جس سے قیمتیں مناسب سطح پر لانے میں مدد ملتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں افراط زر اور مہنگائی کے منفی اثرات سے کوئی ادارہ یا حکومت تنہا نہیں نمٹ سکتے۔ اس پر قابو پانے کے لیے سب کو اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے۔
رسل کا کہنا ہے کہ ایک عام فرد بھی اپنے اخراجات میں تبدیلی لا کرافراط زر کے اثرات میں کمی لا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ افراط زر اور مہنگائی کے موجودہ اثرات کب تک برقرار رہیں گے۔ اس لیے آپ کو آنے والے دنوں کی منصوبہ بندی ابھی سے کرنا ہو گی۔
بچت کی عادت ڈالیں
اگر آپ کے پاس اپنے بنیادی اخراجات سے کچھ زائد رقم ہے تو اسے بلاضرورت خریداری پر صرف کرنے کے بجائے ان مالیاتی پروگراموں میں لگائیں جہاں سے آپ کو بہتر منافع مل سکتا ہو۔ اس طرح آپ کے سرمائے میں اضافہ ہو گا۔
سرمایہ کاری سے آپ کی بچت کی گئی رقم بھی افراط زر سے محفوظ رہے گی۔اس کا ایک اثر یہ بھی ہوگا کہ جب جب لوگ بلاضرورت خریداریوں سے گریز کریں گے تو قیمتوں کو بھی کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔
اپنے اخراجات گھٹائیں
عموماً دیکھا گیا ہے کہ لاشعوری طور پر ہمارے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں، جن میں کمی لانا ممکن ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرہم اس کمرے کی لائٹ بند کر کے بجلی بچا سکتے ہیں جس میں کوئی موجود نہ ہو۔ اگر ایئر کنڈیشنر زیر استعمال ہے تو اس کے تھرمو اسٹیٹ میں معمولی تبدیلی سے ٹھنڈک میں تو کوئی قابلِ ذکر فرق نہیں پڑتا لیکن یہ فرق بل میں نمایاں دیکھا جا سکتا ہے۔
کم فاصلوں تک آنے جانے کے لیے گاڑی یا موٹرسائیکل کے بجائے پیدل چلنے یا سائیکل چلانے کو ترجیج دیں، اس سے تیل کی بچت ہو گی اور صحت بھی بہتر رہے گی۔
اسی طرح ہم گھر میں استعمال ہونے والے پانی میں بھی کفایت کر سکتے ہیں۔ اس سے پانی کی قلت کے شکار علاقوں میں لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے ۔
یہ چند مثالیں ہیں لیکن ہماری روزمرہ کی زندگی میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن میں کمی کرنے سے زیادہ فرق نہیں پڑتا لیکن ہماری بچت میں قابلِ ذکر اضافہ ہو جاتا ہے جسے کسی بہتر مقصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
ایمنڈا کلے پول بلاگر کی کہانی
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلے کے لیے آمد ن اخراجات میں توازن پیدا کرنے سے متعلق مالیاتی امور کے ماہر والٹر رسل نیویارک کی ایک بلاگر ایمنڈا کلے پول کی مثال دیتے ہیں۔
ایمنڈا کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک سائیکل خرید لی ہے اور کم فاصلوں کے لیے سائیکل پر آتی جاتی ہیں، جس سے روزانہ تقریباً 16 میل کے لیے پیٹرول کی بچت ہونے کے ساتھ ان کی صحت بھی بہتر ہوئی ہے۔
ایمنڈا کہتی ہیں کہ انہوں نے سادہ خوراک کا استعمال شروع کر دیا ہے جو نہ صرف کم قیمت ہوتی ہے بلکہ صحت کے لیے فائدہ مند بھی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور اسی طرح کے کئی امراض کا ایک سبب مرغن غذائیں بھی ہیں، جن سے چھٹکارا پانے میں سادہ خوراک اور سادہ طرز زندگی مدد دیتا ہے۔صرف غذا کی تبدیلی اور صحت مند طرز ِزندگی سے دواؤں پر اٹھنے والے اخراجات میں نمایاں کمی کی جاسکتی ہے۔