بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں طویل عرصے تک قیام کرنے والا خلابازوں کا تیسرا گروپ اسپیس ایکس راکٹ کے ذریعے جمعے کی صبح خیریت سے واپس زمین پر پہنچ گیا۔
فلوریڈا کے ساحل کے قریب خلیج میکسیکو میں اترنے والی خلابازوں کی اس ٹیم نے زمین کے مدار میں متعدد سائنسی تجربات کیے جن میں خلا میں مرچیں اگانے سے لے کر روبوٹس تک کے تجربات شامل تھے۔
اسپیس ایکس کے کیپسول ڈریگن کے ذریعے چار خلا باز زمین پر واپس آئے ہیں جن میں سے تین امریکی خلائی ادارے ناسا کے خلاباز ہیں جب کہ چوتھا خلاباز ایک جرمن ہے جس کا تعلق یورپی خلائی ایجنسی سے ہے ۔
یہ چاروں خلاباز گزشتہ سال 11 نومبر کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچے تھے، جن میں 61 سالہ ٹام مارشبرن ، 44 سالہ راجہ چاری، 34 سالہ کیالابیرن اور یورپی خلائی ایجنسی کے 52 سالہ میتھیاس مورر شامل ہیں۔ ٹام مارشبرن اس سے پہلے بھی خلائی سفر پر جا چکے ہیں۔
کیپسول کے اندر کی تصاویر میں خلاباز اپنی نشستوں پر سفید رنگ کے لباس اور ہیلمٹ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو بیلٹ کے ذریعے سیٹ کے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ زمین پر پہنچنے کے بعد ان کا کیپسول خلیج میکسکو کے پانی میں گرا جہاں انہیں لینے کے لیے ایک جہاز پر عملہ پہلے سے موجود تھا۔ کیپسول سے باہر نکلنے کے بعد خلابازوں نے تقریباً چھ ماہ کے بعد پہلی بار کھلی فضا میں سانس لیا۔
آپ کے لیے یہ چیز یقیناً دلچسپ ہو گی کہ جس کیسپول میں خلاباز سوار ہوتے ہیں، جب وہ زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوتا ہے تو اپنی تیز رفتار اور ہوا کی رگڑ کی وجہ سے اس کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے اور زمین تک پہنچتے پہنچتے اس کا ٹمپریچر 1930 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ یاد رہے کہ 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر پانی ابلنے لگتا ہے۔ خلابازوں کو انتہائی اونچے درجہ حرارت سے محفوظ رکھنے کے لیے کیپسول کو ٹھنڈا رکھنے کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے خلاباز حرارت سے محفوظ رہتے ہیں۔
کیپسول کا سمندر میں اترنے کا منظر بھی خاصا دلچسپ ہوتا ہے۔ زمین کے قریب پہنچنے پر آخری مرحلے میں کیپسول میں نصب پیراشوٹ کھل جاتے ہیں اور اس کی رفتار کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جب کیپسول پانی سے ٹکراتا ہے تو اس وقت اس کی رفتار تقریباً 24 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔
ان دنوں امریکہ کے زمینی مراکز سے خلابازوں کو زمین کے بیرونی مدار اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پہنچانے کے لیے اسپیس ایکس کے راکٹ اور کیپسول استعمال کیے جا رہے ہیں۔ جب کہ اس سے قبل ناسا اپنے راکٹوں کے ذریعے یہ ذمہ داری نبھا رہا تھا۔ چند سال قبل ناسا نےراکٹ بھیجنے کا پروگرام ختم کر دیا تھا جس کے بعد سے امریکی خلاباز روسی راکٹوں کے ذریعے خلائی مہمات کے لیے آ جا رہے تھ، جس پر امریکہ کو لاکھوں ڈالر معاوضہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب یہ ذمہ داری اسپیس ایکس نے سنبھال لی ہے۔
کیلی فورینا میں قائم اسپیس ایکس کمپنی کی بنیاد ارب پتی امریکی شخصیت ایلن مسک نے 2002 میں رکھی تھی۔ وہ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کے بھی مالک ہیں اور حاصل ہی میں انہوں نے ویب پر سماجی رابطوں کی ایک معروف کمپنی ٹوئٹر بھی خرید لی ہے۔
(خبر کا مواد خبررساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیاہے)