امریکی صدر جوبائیڈن منگل کو نیویارک کے شہر بفلو کا دورہ کریں گے جہاں ہفتے کو ایک گروسری اسٹور پر حملے میں دس افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔ صدر بائیڈن نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ نفرت کی بنیاد پر ہونے والے اس حملے میں جنگی نوعیت کے ہتھیار استعمال کیے گئے تھے۔
اتوار کی شام ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا جسے عدالت نے مزید سماعت تک جیل بھیج دیا ہے۔ بفلو کے کمشنر جوزف گراما گلیا نے کہا ہے کہ بفلو گروسروی اسٹور پر فائرنگ کرکے دس سیاہ فام افراد کو ہلاک کرنے والے ملزم اٹھارہ سالہ مپیٹن گینڈرون کو اگر بروقت نہ روکا جاتا تو وہ اس حملے کے بعد مزید مقامات پر حملے کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا۔
انھوں نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ہمیں موصول ہونے والی معلومات میں انکشاف ہوا ہے کہ سپر مارکیٹ پر فائرنگ کے بعد وہ فرار ہوکر مزید حملے جاری رکھنے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ اگر اسے پولیس بروقت نہ روکتی تو وہ مزید سیاہ فام لوگوں کو گولیاں مارنے کے لیے جیفرسن ایونیو پر گاڑی دوڑانے کا منصوبہ رکھتا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ فائرنگ کے اس واقعہ کے ایک منٹ کے اندر پولیس موقع پر پہنچ گئی تھی جس نے اس ملزم کا مزید تباہی کا منصوبہناکام بنا دیا ۔ پولیس نے اس کے قبضے سے گولیوں کے کئی میگزین برآمد کیے۔
وائٹ ہاوس کے مطابق صدر اور ان کی اہلیہ جل بائیڈن کمیونٹی کے ان متاثرہ افراد کے غم میں شریک ہیں جن پر ہولناک حملہ کیا گیا اور دس جانیں ضائع ہوئیں۔ اتوار کو واشنگٹن میں واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ امریکی محکمہ انصاف فائرنگ کے اس واقعہ کو نفرت پر مبنی جرم، سفید فام بالادستی اور پرتشدد انتہا پسندی کے نسلی محرک کی روشنی میں تحقیقات کررہا ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ ہم سب کو اس نفرت سے نمٹنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گترس نے بھی فائرنگ کے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ اتوار کو ان کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ نسل پرستی اور پرتشدد انتہا پسندی کے اس گھناونے عمل میں دس افراد کی ہلاکت نے ہمیں ششدرکردیا ہے۔
حکام نے واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث اٹھارہ سالہ شوٹر کی شناخت بفلو سے تقریبا تین سو تیس کلو میٹر جنوب مشرق میں کونکلین، نیویارک کے پیٹن گینڈرون کے نام سے کی ہے ۔ اس فائرنگ کے متاثرہ تیرہ میں سے گیارہ سیاہ فام ہیں۔
حکام کے مطابق حملہ آور ملٹری وردی پہنے ہوئے تھا اور وہ اپنے ہیلمٹ میں لگے کیمرے سے واقعہ کی لائیو اسٹریمنگ بھی کررہا تھا۔فائرنگ کے بعد اس نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
بفلو کے میئر بائرن براون نے اتوار کو سی بی ایس کے پروگرام،' فیس دی نیشن ' میں بتایا کہ پولیس اس شوٹر کے پس منظر اور اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا اور یہ کیوں کر یہ گھناؤنا جرم کرنے اس شہر میں آیا۔ انھوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ کوئی سینکڑوں میل دور سے گاڑی چلاتے ہوئے یہاں آیا حالانکہ وہ اس کمیونٹی کو نہیں جانتا تھا کیونکہ یہ زیادہ تر سیاہ فام لوگوں کی آبادی ہے۔ ملزم نے جان بوجھ کر باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ قدم اٹھایا تھا۔تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاہ فام لوگوں کی جان لے سکے۔
لیکن انھوں نے کہا کہ ہم ایک مضبوط کمیونٹی ہیں ۔ ہم آگے بڑھتے رہیں گے، یہ کمیونٹی ترقی کررہی ہے۔ لوگ سرمایہ کاری اور مواقع کے منتظر ہیں۔ ہم اس پیش رفت کو نفرت کےنظریے سے روکنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس اندوہناک واقعہ کے بعد ماضی کی طرح ایک بار پھر براون نے کانگریس سے مطالبہ کیا ہےکہ اسلحے پر کنڑول کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک میں بندوق کے پھیلنے اور غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے قوانین میں اصلاح کرنا ہوگی۔
ماضی میں بھی بڑے پیمانے پر ہونے والی ایسی ہی فائرنگ کے واقعات کے بعد ملک بھر میں گن کلچر کے خلاف آواز بلند ہوتی رہی ہے لیکن گن کنڑول کے لیے کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے۔
ہسپتال کا گاون پہنے گینڈرون کو ہفتے کی رات فرسٹ ڈگری قتل کے الزام میں عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے بغیر ضمانت اسے جیل بھیج دیا ہے۔مزید سماعت آئندہ دنوں میں ہو گی۔
تفتیش کار فائرنگ کرنے والے شخص کی اس طویل آن لائن پوسٹ کا بھی جائزہ لے رہے ہیں جو اس نے سفید فام بالادستی کے نظریات کو بیان کرنے کے لیے پوسٹ کیا تھا۔ ایک سو اسی صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں انٹرنیٹ فورم پر اس نے بنیاد پرستی کے اظہار کے ساتھ کسی ایک سیاہ فام محلے کو نشانہ بنانے کے منصوبے کی تفصیلات بھی درج کی تھیں۔
اس دستاویز میں اس نے خود کو فاشسٹ اور یہود دشمن بھی بتایا ہے ۔ بیان میں انتہائی دائیں بازو کے سازشی نظریات کو دوہرایا گیا ہے کہ مغربی ممالک میں سفید فام آبادی کم ہوتی جا رہی ہے اور اس کی جگہ غیر سفید فام تارکینِ وطن لیتے جا رہے ہیں، جس کی کوئی دلیل نہیں۔
بفلو کے میئر براون نے کہا ہےکہ بندوق اور اس طرح کے نظریات آتشگیر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صرف بفلو ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں کمیونٹیز گن اور نفرت انگیز نظرئے سے غیر محفوظ ہیں ۔ ان نظریات کو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر پھیلانے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ انھوں نے سی بی ایس کو انٹرویو میں کہا کہ اسے روکنا ہوگا ۔یہ آزادئ اظہار نہیں بلکہ یہ نفرت انگیزی ہے۔ یہ امریکی زبان نہیں۔ اسے ختم کرنا ہو گا۔