نیو یارک ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان کی سیاست، ان کے منشور اور ان کی حکومت کا دفاع نہیں کر سکتے لیکن جہاں تک بطور وزیر اعظم ان کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے، بالخصوص روس کے دورے کے ساتھ، وہ اس حوالے سے عمران خان کا دفاع کریں گے کہ ان کو نہیں معلوم تھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان تنازعہ عین اسی دن شروع ہو جائے گا جب وہ ماسکو میں دورے پر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیرخارجہ وہ پاکستان کو روایتی خارجہ پالیسی سے ہٹا کر’ ٹریڈ ناٹ ایڈ‘ کی طرف لے جانا چاہیں گے۔
’سب کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں‘
جمعرات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی صدارت میں عالمی تحفظ خوراک پر روس یوکرین تنازعے کے اثرات کے موضوع پر اوپن ڈیبیٹ میں پاکستان کی نمائندگی کے بعد بلاول بھٹو نے بین الاقوامی اور پاکستانی میڈیا کو اپنے دورے کے حوالے سے بریفنگ کے دوران سابق وزیر اعظم کے دورہ روس کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ، کسی کی چھٹی حس نہیں ہوتی، کوئی مستقبل کا حال نہیں بتا سکتا، اورکوئی نہیں جانتا تھا کہ تنازعے کا آغاز اس وقت ہو جائے گا اور اتنے معصومانہ فعل کے لیے پاکستان کو سزا دینا بدقسمتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کی خارجہ پالیسی میں اگرچہ خان حکومت کی پالیسی کے مقابلے میں زیادہ بارکیاں ہیں تاہم پالیسی کی سمت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ روس سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور کسی ایک ملک سے بھی دشمنی کے متمنی نہیں ہیں۔
روس یوکرین جنگ کے معاملے پر پاکستان کی پوزیشن کے بارے میں بھی ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کی نئی اتحادی حکومت کی وہی پالیسی ہے جو پچھلی انتظامیہ کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں جنگ کے اثرات دیکھے ہیں اس لیے وہ چاہتا ہے کہ دنیا بھرمیں تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جائے اور امن کو جنگ پر فوقیت دی جائے۔
افغانستان کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے وزیرخارجہ نے طالبان حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ دنیا کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدے پورے کریں اور خواتین کی تعلیم اور تمام انسانی حقوق کا احترام کریں جو عالمگیر سطح پر مسلمہ ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دنیا بھی افغانستان کے اندر غربت اور معاشی مشکلات کا ادراک کرے اور انسانی بنیادوں پر افغان عوام کی مدد کرے۔ ان کے بقول افغان عوام کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ دنیا ایک بار پھر ان کو راستے میں چھوڑ کر چلی گئی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور قیادت ایک صفحے پر ہیں۔ مسائل کو اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق حل کیا جائے۔
غذائی تحفظ اور تنازعات پر سلامتی کونسل میں وزیرخارجہ نے کیا کہا؟
بلاول بھٹو نے امریکہ کی سربراہی میں سلامتی کونس میں تحفظ خوراک اور تنازعات کے موضوع پر اوپن ڈیبیٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں بھوک اور جنگ کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اگرچہ دنیا نے خوشحالی کے فروغ کے لیے اجتماعی طور پر پیش رفت کی ہے لیکن تنازعات اور غربت کی منظم وجہ پر قابو پانا ابھی پاقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بڑی طاقتوں کے درمیان تنازعات میں سیاسی گفت و شنید کا عمل آج کے دور میں منجمد ہو کر رہ گیا ہے اور پرانے تنازعات جہاں ابھی حل نہیں ہو سکے وہاں نئے تنازعات جنم لے رہے ہیں اور ان کے حل میں سیکیورٹی کونسل، "مفلوج" نظر آتی ہے۔
روس یوکرین جنگ پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یوکرین کے لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ اسی طرح افغانستان کے اندر 95 فیصد عوام کے غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا خطرہ ہے۔ اور بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں ان کے بقول کشمیری عوام ایک دائمی تنازعے کی قید میں ہیں جہاں انسانی زندگی شدید مشکلات سے دوچار ہے۔
وزیر خارجہ نے جمعرات کے روز بھی دو طرفہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا اور کیلیفورنیا سے ایوان نمائندگان کے رکن ایمی بیرا سے دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے ریپبلکن پارٹی کے سینئر راہنما سینیٹر لنزی گراہم کے ساتھ بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی۔
"حکومت نہیں کرنی تو استعفے دے دیں"
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ بین الاقوامی فورم پر پاکستان کے اندر جاری سیاسی کشیدگی پر بات کرنے سے ابتداً گریز کا اعادہ کیا تھا لیکن پاکستان کے صحافیوں کی طرف سے آنے والے سوالات کے جواب دیے بغیر نہ رہ سکے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت ملک کو معاشی طور پر تباہ کر کے گئی ہے اور نئی حکومت کو ازالے کے لیے وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ بہت خراب حالات میں ملک اتحادیوں کو ملا ہے اور عمران خان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی بلکہ ان کو آئینی اور جمہوری طور پر گھر بھجوایا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سیاست میں مخالفت فطری بات ہے لیکن دشمنی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس وقت اپنی سیاسی حریف جماعت مسلم لیگ نواز کے ساتھ مل کر حکومت میں بیٹھے ہیں تاکہ ملک کو مشکل حالات سے نکالا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن یعنی سچ کو تسلیم کر کے اختلافات سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔اس سے پہلے انہوں نے مریم نواز کے اس بیان سے متعلق سوال پر کہ مہنگائی کرنے سے بہتر ہے حکومت چھوڑ دیں، بلاول بھٹو نے کہا کہ ’حکومت نہیں کرنی تو استعفے دے دیں’۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات ضروری ہیں اور وہ اوورسیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ پیپلز پارٹی انکے بقول اس بات کی حامی رہی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو پارلیمنٹ کے اندر نمائندگی دی جائے۔
بلاول بھٹو اور اتحادی حکومت کے خلاف نیویارک میں مظاہرہ:
ایسے وقت میں جب بلاول بھٹو نیویارک کا تین روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد پاکستان جا رہے تھے، نیویارک میں پاکستانی قونصل خانے کے باہر تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں نے عمران خان حکومت کے خاتمے اور اتحادی حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔
درجنوں مظاہرین نے عمران خان کے حق اور بلاول بھٹو اور دیگر اتحادی راہنماوں کے خلاف نعرے بھی لگائے۔ مظاہرین نے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور ملک میں فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اپریل کے شروع میں اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اکثریت سے محروم ہونے کے بعد عمران خان کی قیادت والی حکومت ختم ہو گئی تھی جس کے بعد ملک کے اندر اور دنیا کے مختلف دارالحکومتوں اور شہروں میں تحریک انصاف کے حامی مظاہرے کر رہے ہیں۔