افغانستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ نے کہا ہے کہ طالبان حکمرانوں نے تمام ٹیلی ویژن چینلز کی خواتین اینکرز کونشریات کے دوران چہرہ ڈھانپنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ طلو ع نیوز نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ حکم وزارت فضیلت سے آیا ہےجنھیں یہ ٹاسک نافذ کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ حکم حتمی ہے جس پر بات چیت کی گنجائش نہیں ۔
خبررساں ادارے اے پی کے مطابق یہ احکامات اس ماہ کے شروع میں جاری ہونے والے اس حکم نامے کے بعد آئے ہیں جن میں خواتین کو سر سے پاوں تک اس طرح ڈھانپنے کا حکم دیا گیا تھاکہ جس سے صرف ان کی آنکھیں ہی نظرآتی ہوں۔
ایک مقامی افغان میڈیا کے اہل کار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ انھیں حکم ملا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس پر مزید کوئی بات نہیں ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ٹیلی ویژن اسٹیشن کے پاس اس پرعملدرآمد کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔
بہت سی خواتین اینکرز نے سماجی میڈیا پر اپنی تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں نشریات کے دوران ان کا چہرہ ڈھانپا ہوا دیکھائی دے رہا ہے۔ طلوع نیوز کی ایک ممتاز اینکر یلدا علی نے اپنے چہرے پر ماسک پہنے ہوئے ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس کا عنوان ہے وزارت فضلیت کے حکم پر ایک عورت کو مٹایا جارہا ہے۔
شمشاد ٹیلی ویژن اسٹیشن پر طالبان کے اس حکم نامے پر ملا جلا عملدرآمد دیکھنے میں آیا ۔ اس ٹیلی ویژن پر ایک خاتون اینکر جمعرات کو ماسک کے ساتھ اسکرین پر نمودار ہوئیں لیکن دیگر خواتین اینکرزکسی ماسک کے بغیر اپنا چہرہ کھلا رکھ کر اسکرین پر آئیں۔
گزشتہ برس اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے عندیہ دیا تھا کہ وہ خواتین پر ماضی کی سخت پابندیوں کو نہیں دہرائیں گے اور پالیسی کو معتدل رکھیں گے، لیکن تازہ ترین حکم نامے اس کی نفی کرتے ہیں اور دائیں بازو کی ایک سخت پالیسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
طالبان نے ٹیلی ویژن اینکر کے لیے اس حکم نامے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
طالبان قائدین اس سے پہلے اپنے ایک سابقہ حکم نامے کو واپس لیتے ہوئے یہ حکم بھی جاری کرچکے ہیں کہ بچیاں چھٹی جماعت کے بعد اسکول نہیں جائیں گی ۔
( اس رپورٹ میں کچھ مواد خبررساں ادارے اے پی سے لیا گیا ہے)