بھارت اور پاکستان نے حال ہی میں ہونے والے مستقل انڈس کمیشن کے اجلاس میں دریاؤں کے پانی کے مسائل پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔بھارت کے وفد کی قیادت بھارتی کمشنر برائے انڈس واٹر، اے کے پال جب کہ پاکستان کے وفد کی قیادت ان کے ہم منصب سید محمد مہر علی شاہ نے کی۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق 30 اور 31 مئی کو نئی دہلی میں ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی سسے منسلک مسائل پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ پاکستان کو سیلاب سے متعلق اطلاعات کی فراہمی پر اتفاق کرتے ہوئے دونوں ممالک نے مستقل انڈس کمیشن کی تازہ رپورٹ پر دستخط کیے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت حال ہی میں ہونے والا معمول کا اجلاس ایک ایسے وقت ہوا جب جنوبی ایشیا غیر معمولی گرم موسم کی زد میں ہے۔ اپریل اور مئی کے مہینوں میں اوسط درجۂ حرارت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ ماہرین آب و ہوا کے تغیرات اور خطے میں کاربن گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج کو قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی کمی کاخدشہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ ا گریہی صورتِ حال جاری رہی تو نہ صر ف پاکستان اور بھارت کے شمال میں واقع ہمالیہ کے گلیشئر ز سکڑنے سے مستقبل میں جنوبی ایشیا اور خاص طور پر پاکستان کے مغربی دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی ہو سکتی ہے بلکہ خطے میں خوراک کے تحفظ کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں طے پانے والا سندھ طاس معاہد ہ دونوں ممالک کے درمیان دریائی پانی سے متعلق مسائل کے حل کے لیے اہم رہا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ موجودہ دور کےآب و ہوا کے تغریرات سے جنم لینے والی مشکلات اور مسائل کا حل تجویز نہیں کرتا۔۔ جب یہ معاہد ہ ہوا تھا اس وقت آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے کوئی خاص تصور موجود نہیں تھا۔
ماہرِ موسمیات ڈاکٹر قمر الزمان کہتے ہیں کہ اس وجہ سے اس معاہدے میں کئی سقم رہ گئے تھے جو موجودہ دور میں آب و ہوا کے تغیرات کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے دریاؤں سے متصل ماحولیاتی اور حیاتیاتی نظام کو درپیش خطرات او ر گلیشئرز پگھلنے کے باعث غیر معمولی اور ناگہانی سیلابوں سے نمٹنے سے قاصر ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاؤں راوی ، بیاس اور ستلج کے پانی پر بھارت کا کلی حق تسلیم کیا گیا تھا جب کہ تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کے پانی کے استعمال کا حق پاکستان کو دیا گیا تھا۔
بھارت کی طرف سے بعض مغربی دریاؤں پر تعمیر کیے جانے والے پن بجلی کے کچھ منصوبوں پر اسلام آباد اعتراضات کرتا آرہا ہے۔
حالیہ اجلاس میں یہ معاملہ پاکستان نے اٹھایا جس پر بھارت کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں سے متعلق پاکستان کے دیگر اعتراضات پر آئندہ اجلاس میں بات کی جائے گی کیوں کہ نئی دہلی ان اعتراضات کی تفصیل کا جائزہ لے رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے ان آبی منصوبوں پر سندھ طاس معاہدے کے تحت ہونے والے اجلاسوں میں اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان بات چیت ہوتی رہی ہے لیکن آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے میں پانی کی ممکنہ کمی اور دیگر چیلنجز پر کم ہی بات ہوئی ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاؤں کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کرنے کے بعد پاکستان میں گزرنے والے یہ دریا خشک پڑ چکے ہیں اور ان دریاؤں کے ماحولیاتی اور حیاتیاتی تنوع میں 70 سے 80 فی صد تک کمی آ چکی ہے۔
قمر الزمان کہتے ہیں کہ 10 سال پہلے بھارت اور پاکستان کے درمیان اس معاملے پر بات ہوئی تھی کہ سند طاس معاہدے میں جو سقم تھے انہیں ممکنہ حد تک دور کر کے ان دریاؤں میں پانی کے کم از کم قدرتی بہاؤ کو برقرار رکھا جائے تاکہ ان کی گزرگاہوں کے ماحولیاتی اور حیاتیاتی نظام کو محفوظ بنایا جا سکے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کے بعد یہ معاملہ پس منظر میں چلا گیا البتہ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کو مل کر کوشش کرنی ہو گی۔
پاکستان کی پانی و بجلی کی وزارت کے سابق سیکریٹری اور آبی وسائل کے امور کے ماہر مرزا حامد حسن کہتے ہیں کہ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کو سوچ بچار کرنا گا اور کوئی نیا طریقۂ کار ترتیب دینا ہوگا۔ ان کے بقول اس کے لیے اس معاہدے میں کوئی تبدیلی کرنا شاید بہت مشکل ہے۔
ماضی میں پاکستان اور بھارت سندھ طاس معاہدے پر اپنے معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرتے رہے ہیں تاہم بعض اختلافات بھی سامنے آتے رہے ۔ اختلاف کی صورت میں عمومی طورپر ورلڈ بینک سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ بھارت کو یہ حق دیتا ہے کہ دریا کے پانی کے بہاؤ کا رخ کو تبدیل کرے اور بعد میں اس پانی کو واپس دریا میں ڈال دے۔ اسی بات پر دونوں ممالک میں اختلاف ہے۔
حامد مرزا کہتے ہیں کہ معاہدے کی اسی شق کے تحت بھارت مغربی دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے البتہ پاکستان اس بات پر اعتراض کرتا رہا ہے کہ بھارت جو ڈیم بناتا ہے اس کا ڈائزین ایسے ہونا چاہیے اس میں پانی محفوظ کرنے کی صلاحیت نہ ہو اور اس کا استعمال ایسا ہونا چاہیے جس سے پاکستان کو ملنے والے پانی کی مقدار میں میں کوئی کمی نہ ہو۔
پاکستان نے اگست 2016 میں بھارت کے 330 میگاواٹ کشن گنگا ڈیم اور 850 میگاواٹ رتلے پن بجلی کے منصوبے پر عالمی بینک سے ثالثی کی درخواست کی تھی۔ تاہم اس حوالے ثالثی کی عدالت ابھی قائم ہونا باقی ہے کیوں کہ بھارت نے عالمی بینک کو ایک غیر جانب دار ماہر مقرر کرنے کی درخواست کی ہے۔
جنوبی ایشیا دنیا کے ان خطوں میں سے ایک ہے جہاں پانی کے شدید کمی کا خدشہ ہے۔ پانی میں کمی کی ایک بڑی وجہ آب و ہوا کی تبدیلی کو قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے زیادہ تر دریاؤں کے پانی کا انحصار ہمالیہ کے گلیشئر ز کے پانی پر ہے البتہ عالمی درجۂ حرارت کی وجہ سے یہ تیزی سےپگھل رہے ہیں اور یہ خطر ہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کے جلد پگھلنے سے جنوبی ایشیا کے ممالک کو کئی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف سیلابوں کا خطرہ بڑھ جائے گا جب کہ بعض اوقات دریاؤں کے بہاؤ میں شدید کمی بھی آ سکتی ہے۔
ہمالیہ اور قراقر م کے گلیشئر پگھلنے کے چیلنج کا سامنا صرف پاکستان کو ہی نہیں ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھارت ، بنگلہ دیش اور نیپال کو بھی ہے۔
پانی اور توانائی کے ماہر ارشد عباسی کہتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ماہرین اس طرف توجہ مبذول کرا رہے ہیں کہ سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے۔ دوسری جانب بھارت اور چین کی لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر کشیدگی کی وجہ سے قدرتی ماحول کے توازن پر اثر پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب 1984 سے سیاچن گلیشئر پر فوجی تناؤ موجود ہے اور دونوں ممالک کی فورسز ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ یہاں ٖغیر معمولی انسانی نقل و حرکت کے باعث دنیا کا سب سے بڑا گلیشئر سیاچن اب پگھل رہا ہے۔
دوسری جانب ماہرین کہتے ہیں کہ ہمالیہ کے گلیشئرز کو ایک مشترکہ ورثہ قرار دے کر ممنوع علاقہ قرار دے دیا جائے۔
قمر الزمان نے اس حوالے سے کہا کہ اگرچہ سیاسی طور پر یہ مشکل ضرور ہو گا لیکن یہ جنو بی ایشیا کے تمام ممالک کے مفاد میں ہوگا کیوں کہ پورے جنوبی ایشیا کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
کوئلے سے چلنے والے توانائی کے منصوبوں کی وجہ سے کاربن گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے عالمی حدت میں اضافے کی ایک وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان ، بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش پیرس معاہدے کے تحت یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کر رہے ہیں۔
پاکستان نے اس عزم کا بھی اظہا رکیا ہے کہ وہ کوئلے سے چلنے والے مزید بجلی گھر قائم نہیں کرے گا۔بھارت نے بھی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو بتدریج کم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔