رسائی کے لنکس

بی جے پی رہنما کا متنازع بیان، کیا اسلامی دنیا اور بھارت کے رشتے متاثر ہو رہے ہیں؟


بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے پیغمبرِ اسلام سے متعلق متنازع بیانات پر مسلم ملکوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ احتجاج کرنے والے ملکوں کی تعداد بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔

دریں اثنا ممبئی کی پولیس نے اپنا بیان درج کرانے کے لیے نوپور شرما کو 22 جون کو طلب کیا ہے۔ وہاں ان کے خلاف ایک تنظیم رضا اکیڈمی کی جانب سے ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔

بی جے پی کی جانب سے دونوں رہنماؤں کو پارٹی سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ وضاحتی بیان جاری کرکے کہ بھارت تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے، مسلم ملکوں میں عوامی برہمی اور احتجاج کے سلسلے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ کوشش تاحال کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔

اقوامَ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ اقوامِ متحدہ تمام مذاہب کے احترام اور تحمل پر زور دیتا ہے۔

سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے ایک پاکستانی صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ اس بارے میں ہم نے خبریں دیکھی ہیں۔ میں آپ سے کہہ سکتاہوں کہ ہم مضبوطی کے ساتھ تمام مذاہب کے احترام اور تحمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

نئی دہلی میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا اس واقعہ کی وجہ سے مسلم ملکوں سے بھارت کے تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ مبصرین اور تجزیہ کار اس سلسلے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔ اس بارے میں نیوز چینلز پر بھی بحث ہو رہی ہے اور اخباروں میں بھی مضامین شائع ہو رہے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی نے 2014 میں وزیرِ اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد مسلم ملکوں کے دورے کرکے اور وہاں کی قیادت سے ملاقاتیں کرکے باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ ان ملکوں میں نریندر مودی کی مقبولیت اور باہمی تجارت میں بھی کافی اضافہ ہوا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس واقعہ سے ان کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔

ان کے مطابق اس سے پہلے بھی بی جے پی کے رہنما اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قابلِ اعتراض بیانات دیتے رہے ہیں۔ لیکن مودی حکومت کے دوران یہ پہلا موقع ہے جب مسلم دنیا میں ایسا شدید ردعمل ہوا ہے۔ ان کے خیال میں اس سے دنیا میں بھارت کی ساکھ کو دھچکہ لگا ہے۔


ان کے مطابق ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ ا س واقعہ کا مسلم ملکوں کے ساتھ بھارت کے سیاسی و تجارتی تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔ لیکن اگر آگے بھی ایسے بیانات دیے جاتے رہے تو باہمی رشتے یقیناً متاثر ہوں گے۔

سابق سفارت کار ذکر الرحمن کہتے ہیں کہ متنازع بیانات پر مسلم ملکوں کے عوام میں کافی ناراضی ہے۔ حکومتوں پر عوام کا دباؤہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حکومتوں نے اس پر احتجاج کیا ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ اس واقعہ کا بھارت کے رشتوں پر کوئی خاص اثر پڑے گا۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ سات آٹھ برسوں کے دوران باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے سیاسی و سفارتی سطح پر اور دانش وروں کی سطح پر بھی بھارت کی جانب سے جو کوششیں کی گئی تھیں ان کو ہلکا سا دھچکہ ضرور لگا ہے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلم ملکوں میں عوامی سطح پر جو شدید ردِعمل ہوا ہے اس کا تقاضہ تھا کہ وہاں کی حکومتیں احتجاج کریں۔ بقول ذکر الرحمن مسلم ملکوں کی حکومتوں نے عوامی ناراضی کو کم کرنے پر توجہ دی ہے۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے یہاں اس معاملے پر کوئی بدامنی پیدا ہو۔

ان کے مطابق دنیا بھارت کو ایک کثیر مذاہب، کثیر ثقافتی و کثیر لسانی ملک کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ اگر آگے بھی قابلِ اعتراض بیانات دیے گئے تو مستقبل میں باہمی تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

لیکن ایک سینئر تجزیہ کار جیوتی ملہوترہ میڈیا ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ حکومت کی سطح پر یہ بات موضوع گفتگو ہے کہ بی جے پی اپنے بعض شعلہ بیاں رہنماؤں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ اس کا اثر نہ صرف ملکی سیاست پر پڑ رہا ہے بلکہ بھارت نے بیرون ملک اپنی جو ساکھ بنائی تھی وہ بھی متاثر ہو رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ دونوں رہنماؤں کے مذکورہ قابلِ اعتراض بیانات پر اندرون ملک کئی دنوں سے احتجاج کیا جا رہا تھا لیکن کارروائی اس وقت کی گئی جب یکے بعد دیگرے متعدد مسلم ملکوں نے بھارت سے شدید انداز میں احتجاج کیا۔


لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک وقتی اور عارضی ردِعمل ہے جو جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ ذکر الرحمن اس سے اتفاق کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر آگے چل کر پھر ایسی باتیں ہوئیں تو اس کا اور سخت عوامی ردِعمل ہوگااور پھر وہاں کی حکومتیں اس پر کنٹرول نہیں رکھ سکیں گی۔

قبل ازیں میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ کویت سمیت بعض مسلم ملکوں میں بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ ذکر الرحمن کہتے ہیں کہ بائیکاٹ کی باتیں دونوں رہنماؤں کو پارٹی سے نکال دینے سے پہلے کی ہیں، اب بائیکاٹ کی باتیں نہیں کی جا رہی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلم دنیا میں جو ردِعمل دیکھنے کو ملا ہے وہ عارضی ہے۔

سینئر تجزیہ کار اور خلیج ٹائمز سے وابستہ رہنے والے صحافی نجم مصطفیٰ کا بھی یہی خیال ہے کہ مسلم ملکوں کا ردِعمل وقتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بابری مسجد کے انہدام کے وقت بھی وہاں ایسا ہی ردِعمل ظاہر کیا گیا تھا لیکن پھر معاملہ ختم ہو گیا تھا۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت بھی بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا تھا لیکن بائیکاٹ کا وقتی اثر پڑنے کے علاوہ کوئی طویل مدتی اثر نہیں پڑا تھا۔ لہٰذا موجودہ ردِعمل کا بھی کوئی طویل مدتی اثر نہیں پڑے گا۔

خلیجی ملکوں سے بھارت کے بہت اچھے تجارتی تعلقات ہیں۔ سال 2020-21 میں خلیج تعاون کونسل کے چھ ملکوں کے ساتھ بھارت کی تجارت میں اضافہ ہوا اور اس نے 110.73 ارب ڈالر کی اشیادرآمد کیں۔ جن میں سب سے زیادہ سعودی عرب سے 43 ارب ڈالر کی درآمدات ہوئیں۔

بھارت قطر سے سب سے زیادہ لیکویفائڈ نیچرل گیس (ایل این جی) درآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے 85 ارب ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ میں کم از کم دو تہائی حصہ خلیجی ملکوں کا ہے۔ اسی طرح خلیج تعاون کونسل سے بھارت کا آزاد تجارت معاہدہ ہونے والا ہے۔


متحدہ عرب امارات سے بھی بھارت کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ وہاں ایک شان دار مندر تعمیر کیا گیا ہے۔ نریندر مودی نے 2018 میں ابو ظہبی کے دورے میں اس مندر کا افتتاح کیا تھا۔

ذکر الرحمن اور نجم مصطفیٰ کہتے ہیں کہ آج کی دنیا میں تمام ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ان میں سیاسی، ثقافتی اور تجارتی رشتے ہیں۔ سب کے اپنے قومی مفادات ہیں۔ لہٰذا اس واقعہ سے ان ’شان دار باہمی تعلقات‘ کے متاثر ہونے کا امکان کم ہے۔

ذکر الرحمن کے مطابق بھارت کو خیال رکھنا ہوگا کہ آئندہ ایسی باتیں نہ ہوں۔ اگر حکومت اس قسم کی باتوں کو نہیں روکتی تو مسلم ملکوں سے بھارت کی تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔

سعودی عرب، عمان اور متحدہ عرب امارات میں بھارت کے سفیر رہنے والے تلمیذ احمد ’دی پرنٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے پیغمبر ِاسلام پر نکتہ چینی کی اجازت دے کر ریڈ لائن عبور کر لی۔

متحدہ عرب امارات اور مصر میں سابق سفیر نودیپ سوری نے یاد دلایا کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ نے 2015 اور 2019 میں عرب خواتین کے خلاف اشتعال انگیز اور قابلِ اعتراض باتیں کی تھیں۔ انہوں نے مسلم ملکوں کے احتجاج کو بھارت کے لیے ’سفارتی ذلت‘ قرار دیا۔

تلمیذ احمد نے بھی بابری مسجد انہدام کے وقت کے احتجاج کا ذکر کیا لیکن یہ بھی کہا کہ موجودہ نفرت انگیزی اس وقت کے حالات سے کہیں زیادہ آگے کی چیز ہے۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بی جے پی حکومت بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کے متاثر ہونے سے پریشان ہے۔ بھارت جمہوری اقدار کے تحفظ کے معاملے میں درجہ بندی میں نیچے گرتا جا رہا ہے۔

نجم مصطفیٰ کہتے ہیں کہ مودی حکومت کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ بلکہ اسے صرف اس کی فکر ہے کہ انتخابات کیسے جیتے جائیں۔ ان کے خیال میں حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ معاملہ دیگر معاملات کی طرح جلد ہی ٹھنڈا ہو جائے گا۔

بھارتی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ الیکشن جیتنے کے لیے نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود کو سامنے رکھ کر پالیسی اور اسکیمیں بناتی ہے۔ وہ عوامی خدمت کو ترجیح دیتی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG