امریکی محکمہ دفاع ( پینٹگان) کے سابق ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کہ یوکرین اپنی خودمختاری کا دفاع جاری رکھ سکے۔
جان کربی نے یہ بات وائس آف امریکہ کی یوکرینی سروس کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہی۔
جان کربی کو حال ہی میں قومی سلامتی کونسل میں سٹریٹجک کمیونی کیشن کے شعبے کا کوارڈی نیٹر بنایا گیا ہے۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ روس نے 24 فروری کو جب سے یوکرین پر حملہ کیا ہے امریکہ نے کیف کو چھ ارب ڈالر مالیت کی امداد فراہم کی ہے۔ اس امداد میں فوجی سازوسامان شامل ہے جیسا کہ ’ہمرس‘ جیسا فعال آرٹلری راکٹ سسٹم۔
انہوں نے بتایا کہ اس بات کا تعین یوکرین کو کرنا ہے کہ اسے کس طرح کے آپریشنز کرنا ہیں اور ان کا اس سامان پر پورا حق ہے جو انہیں امریکہ سے ملتا ہے۔ یہ یوکرین کی ملکیت ہے اور ان کو ہی تعین کرنا ہے کہ وہ اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ کی طرف سے بھجوایا گیا ’ ہمرس‘ میزائل سسٹم اس مرحلے پر میدان جنگ میں کیا اثرات ڈال سکتا ہے؟ جان کربی نے کہا کہ یہ ہائی موبیلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم ہے۔ یہ دور تک مار کر سکتا ہے اور یوکرین کو روسی فورسز کے خلاف مزاحمت میں تقویت پہنچائے گا جب وہ روزانہ کی بنیادوں پر روس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے بھجوائی جانے والی امداد اور سامان سے فرق پڑ رہا ہے۔
’’ یوکرین کے لوگ آپ کو بتائیں گے کہ یہ محض سسٹمز نہیں ہے، بلکہ چھوٹے ہتھیار اور بارود بھی بھجوایا جا رہا ہے جو وہ ہر روز روس کے خلاف لڑائی میں استعمال کر رہے ہیں۔ پہلے ہی اس سے فرق پڑ رہا ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ یوکرین کو مزید ’ ہمرس‘ سسٹمز بھجوائے جائیں۔
کیا بائیڈن انتظامیہ یوکرین کو ہتھیار اس لیے دے رہی ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے یا اس لیے کہ وہ روس کی فورسز کو شکست دینے کے قابل ہو جائے اور ان کو ملک سے نکال باہر کرے؟ اس سوال پر قومی سلامتی کے کمیونی کیشن کے شعبے کے سربراہ جان کربی نے بتایا :
’’ہماری توجہ اس بات پر ہے کہ یوکرین اپنا اور اپنی خود مختاری، اپنے لوگوں اور اپنی علاقائی سلامتی کا دفاع جاری رکھ سکے۔ باقی، بلاشبہ، یوکرین کے لوگ یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کو تعین کرنا ہے کہ وہ کس طرح کے آپریشنز کریں گے۔ اور یہ ان کا حق ہے۔ امریکہ سے ان کو جو سامان ملا ہے، اب یہ ان کی ملکیت ہے۔ اور ان کو ہی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس کا کس نوعیت کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یوکرین کی خودمختاری کا مکمل طور پر احترام کیا جائے۔ یوکرین کی علاقائی سلامتی کو مکمل بحال کیا جائے۔ اور اس کا تعین روس کے صدر ولادی میر پوٹن کی طرف سے ہونا چاہیے۔ لیکن مسٹر زیلنسکی اس بات کا تعین کریں گے کہ فتح ان کے نزدیک کس طرح کی ہیئت رکھتی ہے‘‘۔
اس موقع پر جان کربی سے سوال کیا گیا کہ نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ طویل ہو سکتی ہے، امریکہ کی توقعات اس بارے میں کیا ہیں؟
جان کربی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب صدر پوٹن نے ڈونباس پر حملے کا سوچا تو آپ نے امریکی عہدیداروں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ اس جنگ کے طوالت اختیار کرنے کے امکانات موجود ہیں۔
’’ ہمیں ذہن نشین کرنا ہو گا کہ ڈونباس یوکرین کا حصہ ہے اور روس اور یوکرین اس معاملے پر سال 2014 سے لڑتے چلے آ رہے ہیں۔ ظاہری طور پر تو یہ لڑائی 24 فروری سے شروع ہوئی لیکن یوکرین کے سپاہی کئی برسوں سے اپنے وطن کے لیے جانیں دے رہے ہیں۔ روس کی فوجیں آگے بڑھ رہی ہیں لیکن پیش رفت میں تسلسل نہیں ہے۔ دوسری طرف یوکرین کی فوجیں دفاع کر رہی ہیں، اس طرح یہ ایک طویل تنازعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘‘
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے حالیہ بیانات پر کہ وہ یوکرین کو اس جنگ میں فاتح دیکھنا چاہتے ہیں، جان کربی نے کہا کہ ہم بلاشبہ چاہتے ہیں کہ میدان جنگ میں یوکرین فتح یاب ہو اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر بھی کامیاب ہوں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کا تعین یوکرین کے صدر زیلنسکی کریں کہ ان کے نزدیک فتح کیا شکل رکھتی ہے۔ یہ ان ان کا ملک ہے۔ وہ کمانڈر ان چیف ہیں۔ اور ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ روس کے برعکس ہم یوکرین کے ووٹروں کا احترام کرتے ہیں جنہوں نے ان کو منتخب کر کے صدر کے منصب پر فائز کیا ہے۔ ہم ان کی قیادت اور ان کی ذمہ داریوں کا احترام کرتے ہیں۔
جان کربی نے صدر جو بائیڈن کے جی سیون ممالک کے دورے اور مشرق وسطی کے دوروں کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ یہ دورے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ نیٹو کے سربراہ اجلاسوں میں شرکت ہو یا دنیا کی بڑی معیشتوں کے اجلاس میں، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کے پاس قائدانہ کردار واپس آ چکا ہے۔ امریکہ اپنے اور اپنے اتحادیوں کے لیے ڈیلیور کر رہا ہے۔