واشنگٹن۔ 17 جولائی کو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں اور پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں اور ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ایسے ماحول میں جبکہ پاکستان میں سیاسی اختلاف رائے دشمنی کی حد تک پہنچ چکا ہے اور سیاسی افہام و تفہیم کی گنجائش نظر نہیں آرہی یہ ضمنی انتخاب اس بات کا تعین کرے گا کہ کس سیاسی جماعت کا مستقبل کیا ہے۔ خاص طور سے پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف میں سے کون سی جماعت آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں بہتر پوزیشن میں ہو گی.
پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور ماہرین سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں اپنی حکومت قائم کئے بغیر کوئی سیاسی جماعت مرکز میں آ بھی جائے تو مستحکم حکومت نہیں بنا سکتی۔ اور ماضی میں یہ دیکھا بھی چکا ہے جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی۔
پروفیسر حسن عسکری پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر اس ضمنی انتخاب میں پنجاب پاکستان مسلم لیگ نون کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو اوّل اسکے لئے یہ ایک بڑی خجالت کا سبب ہو گا۔ کیونکہ مرکز میں اس کی حکومت ہے۔ دوسرے یہ کہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان تعلقات اتنے زیادہ خراب ہیں کہ اگر وہاں تحریک انصاف کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر پنجاب اور مرکز کے درمیان کشمکش میں اور زیادہ شدت آ جائے گی۔ اور چونکہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اس لئے اسکے بغیر وفاق میں موثر حکومت چلانا بہت مشکل ہے اور خاص طور سے ایسے میں جبکہ اس وقت ملک کی معاشی حالت بہت خراب ہے اور وفاقی حکومت کی کارکردگی بقول انکے پہلے ہی کمزور ہے۔ تو پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل جانے کا مطلب ان کے لئے بے پناہ مشکلات کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنجا ب کے انتخابات کم از کم دو چیزوں کو بلا واسطہ طور پر ضرور متاثر کریں گے۔ اوّل آئندہ عام انتخاب کے وقت کے تعین کو اور دوسرا یہ کہ ان انتخابات میں عوامی رجحان کس پارٹی کی جانب ہو گا۔
ان 20 نشستوں میں سے جن پر انتخابات ہورہے ہیں, دس نشستیں وہ ہیں جن پر پچھلے انتخابات میں آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے جو بعد میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دس نشستوں پر کیا وہ امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جو اسوقت مسلم لیگ کے ٹکٹ پر وہاں سے لڑ رہے ہیں۔ یا تحریک انصاف جس عوامی مقبولیت کا دعوی کرتی ہے اس کی بنا پر یہاں کامیاب ہو جاتی ہے۔ جبکہ بقیہ دس نشستیں بقول ڈاکٹر عاصم اللہ بخش دونوں جماعتوں کے درمیاں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہیں۔
اگر تحریک انصاف پنجاب اسمبلی میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لیتی ہے۔ تو نہ صرف پنجاب کے بغیر وفاقی حکومت چلانا نا ممکن کی حد تک مشکل ہوگا بلکہ پنجاب میں تحریک انصاف کی یا اس کی حامی حکومت بن جانے کی صورت میں اخلاقی طور پر بھی عام انتخابات کی طرف جانے کے علاوہ اور کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔ اور اگر پاکستان مسلم لیگ نون کامیاب ہو جاتی ہے تو نہ صرف اس کا یہ موقف تسلیم کر لیا جائے گا کہ وہ حکومت چلا سکتی ہے بلکہ اسے دو ہزار تیئس میں عام انتخاب کی مقررہ تاریخ تک انتخاب موخر کرنے کا جواز بھی مل جائے گا۔
ہر چند کہ یہ ضمنی انتخاب پنجاب کی صرف 20 نشستوں پر ہو رہا ہے لیکن اسی انتخاب کی بنیاد پر یہ فیصلہ بھی ہونا ہے کہ پاکستان کے آئندہ انتخاب میں ممکنہ طور پر کونسی جماعت بالا دستی حاصل کر سکتی ہے.
پنجاب میں وزیر اعلی کا انتخاب 22 جولائی کو ہونا ہے لیکن لیکن دراصل فیصلہ تو 17 جولائی کے ضمنی انتخاب کے نتائج آتے ہی نظر آنا شروع ہو جائے گا کہ پنجاب مسلم لیگ کے پاس رہے گا یا تحریک انصاف کے پاس آئے گا۔
سلمان عابد سیاسی امور کے تجزیہ کار اور صحافی ہیں انکا کہنا ہے کہ نہ صرف یہ انتخابات 22 جولائی سے پہلے ہی فیصلہ کر دیں گے کہ پنجاب دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کس کے پاس رہے گا بلکہ آئندہ ہونے والے ملک کے عام انتخابات کے منظر نامے کو بھی واضح کر دیں گے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان کس نوعیت کی صف بندی ہوسکتی ہے۔ اور کس سیاسی جماعت کو ملک میں آئندہ سیاسی بالا دستی حاصل ہو سکتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ کی مرکز میں بھی اس وقت حکومت ہے اور پنجاب میں بھی۔ تو ایسے میں جبکہ باپ بیٹا حکومت میں ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہوگا کہ وہ یہ ضمنی انتخاب اپنی جماعت کو جتوانے کی ہر ممکن کوشش نہ کریں۔ انتظامی طاقت بھی ان کے پاس ہے۔ قانونی طاقت بھی ان کے پاس ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان مسلم لیگ کو برتری حا صل ہے اور لگتا ہے کہ اسی خطرے کے پیش نظر پاکستان تحریک انصاف نے ایک مختلف نوعیت کا بیانیہ اپنایا ہے اور سلمان عابد کہتے ہیں کہ اگر مسلم لیگ کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو خطرہ اس بات کا ہے ہے کہ تحریک انصاف نتائج قبول کرنے سے انکار کردے گی۔ اور اس کے لیڈر نے پہلے سے ہی کہنا شروع کردیا ہے کہ حکومتی سطح پر اس ضمنی انتخاب کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اور اگر ہارنے کی صورت میں وہ انتخاب کے نتائج کو چیلنج کر دیتے ہیں تو سیاسی محاذ آرائی میں اور بھی شدت پیدا ہو جائے گی۔ جو کسی کے لئے بھی اچھی نہیں ہو گی۔
کیا اس پوری سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کا موقف یہ ہے کہ وہ بالکل غیر جانبدار ہے۔ لیکن سلمان عابد سمجھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں معاملات کا دار و مدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا مقتدر حلقے کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نیوٹرل والی بات ایک انٹلیکچوئل بحث تو ہو سکتی ہے۔ عملاً اس کا اطلاق نظر نہیں آتا۔
پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت دور سے تماشہ دیکھ رہی ہے لیکن وفاق میں چونکہ مسلم لیگ کی حکومت ہے اس لئے سرکاری تعلق اور توجہ اسی جانب ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یا مقتدر حلقے جو بھی نتائج ہوں گے انہیں قبول کریں گے کیونکہ وہ عملاً کچھ کرنے کی پوزیشن میں اس لئے نہیں ہیں کہ ان انتخابات پر پورے میڈیا، مانیٹرنگ گروپوں اور خود تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کی بھرپور توجہ مرکوز ہو گی۔
17 جولائی کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں 20 نشستوں پر ہونے والا ضمنی انتخاب پاکستان میں آئندہ سیاست کا رخ متعین کرے گا۔ یہ رخ کس کے حق میں اور کس کے خلاف ہوگا، اس کا بہت حد تک فیصلہ ضمنی انٹخاب کے نتائج کریں گے ۔