پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر دیوار سے لگایا گیا اور ہراساں کیا گیا تو وہ مجبور ہو کر سب کچھ قوم کے سامنے لے آئیں گےکیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے خلاف مبینہ سازش میں کون کون شریک تھا۔
منگل کو اپنے ایک ویڈیو پیغام میں سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک میں کبھی ایسا فاشزم نہیں دیکھا۔ پہلے ٹی وی چینلز پر ان کا بلیک آؤٹ کیا گیا لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے بلیک آؤٹ نہیں ہوسکا اور کئی ٹی وی چینلز نے جرات کا مظاہرہ کیا۔
انہوں ںے کسی ادارے یا حکومتی عہدیدار کا نام لیے بغیر الزام عائد کیا کہ صحافیوں اور ان کی حامی سوشل میڈیا شخصیات اور تحریکِ انصاف کے کارکنان کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اگر آپ صحافیوں کو ڈرا دھمکا کر، ان کے خلاف ایف آئی آر زکٹوا کر یا لفافے دے کر خاموش بھی کرادیں گے تو سوشل میڈیا خاموش نہیں رہے گا۔
انہوں نے حال ہی میں نامعلوم افراد کی جانب سے تشدد کا نشانہ بننے والے سینیئر صحافی ایاز امیر کے بارے میں کہا کہ وہ ایک دیانت دار صحافی ہیں۔ ان کے ساتھ یہ سلوک دوسرے صحافیوں کو پیغام دینے کے لیے کیا گیا ہے۔
عمران خان نے کئی دیگر صحافیوں کے علاوہ اپنی جماعت کے سوشل میڈیا کے کارکنان، حامی یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز کو ہراساں کیے جانے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
اس کے علاوہ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ رواں ماہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ان کے کارکنان اور امیدواروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعظم کے بقول 25 مئی کو پی ٹی آئی کے 'حقیقی آزادی مارچ' کے خلاف بھی ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا تھا۔
عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ ''خوف کے حربے استعمال کرکے چوروں کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میرے خلاف 15 ایف آئی آرز کٹی ہوئی ہیں۔ ہماری لیڈرشپ پر مقدمات بنائے گئے ہیں اور ہمارے خلاف دہشت گردی کی ایف آئی آر بنائی جارہی ہیں تاکہ ہم خاموش ہو کر بیٹھ جائیں۔‘‘
سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ ''میں چپ ہوں جب سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ مجھے سب پتا ہے کس نے کیا کیا ہے۔ صرف اس لیے خاموش ہوں کے ملک کو نقصان نہ پہنچے ورنہ مجھے معلوم ہے کہ سازش میں کون کون ملوث تھا۔ اگر مجھے کچھ ہو جاتا ہے تو میں نے ایک ویڈیو بھی بنا کر رکھی ہوئی ہے جس میں سب تفصیلات بتادی ہیں کہ کس کس نے ملک کے ساتھ غداری کی ہے۔ لیکن اگر اسی طرح ہمیں دیوار سے لگایا گیا اور ہراساں کیا گیا تو میں بولنے پر مجبور ہوں گا اور سب کچھ قوم کے سامنے رکھ دوں گا۔''
سابق وزیراعظم نے اپنے ویڈیو پیغام میں پانچ جولائی 1977 کو پاکستان میں لگنے والے مارشل لا کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بار پھر امریکہ پر پاکستان کی خارجہ پالیسی پہ اثرانداز ہونے کے الزامات کو دہرایا ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست سے کئی اختلافات ہیں لیکن وہ پاکستان کو ایک آزاد خارجہ پالیسی کی طرف لے کر جارہے تھے جس کی انہیں سزا دی گئی۔ ایسی خارجہ پالیسی جو عوام کے مفاد کے لیے بنائی جائے کسی اور ملک کو خوش کرنے کے لیے نہ ہو۔
انہوں ںےدعویٰ کیا کہ اُس وقت کے اور اب کے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی میں ایک بات مشترک ہے کہ امریکہ خوش نہیں تھا۔
واضح رہے کہ امریکہ پاکستان کی سیاست اور داخلی امور میں مداخلت کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان نے حال ہی میں عمران خان کی طرف سے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ امریکہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ کسی بھی ملک میں جمہوری عمل کے دوران کسی مخصوص پارٹی کی حمایت نہیں کرتا ۔
عمران خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں موجودہ حکومت میں شامل رہنماوں کے حوالے سے الزام لگایا کہ حکومت کی تبدیلی میں میر جعفر اور میر صادق کے ساتھ مل کر جو لوگ عوام پر مسلط کیے وہ دنیامیں چوری کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کو اس لیے گرایا گیا تاکہ موجودہ حکومت میں شامل لوگ این آر او ٹو حاصل کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے سارے ریکارڈ توڑ دیے، معیشت کو نقصان ہورہا ہے۔ معاشی سروے میں ہر چیز مثبت تھی۔ ملک صحیح راستے پر جارہا تھا ، روزگار دے رہا تھا لیکن اس وقت یہ مبینہ سازش کی گئی۔
سربراہ تحریک انصاف نے کہا کہ حکومت گرنے کے بعد لوگوں کی خود داری جاگ گئی ہے۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اتنے لوگ سڑکوں پر آئیں گے۔ مبینہ سازش کرنے والوں کے ذہن میں نہیں تھا کہ لوگ اس طرح نکلیں گے۔
واضح رہے کہ رواں برس 10 اپریل کو عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد شہباز شریف کی سربراہی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت قائم ہوئی تھی۔ حکومت عمران خان کی جانب سے ان کے خلاف سازشیں کرنے اور انتقامی کارروائیوں کے الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔