واشنگٹن ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان چپقلش اور رقابت کی قیمت غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو ادا کرنا پڑتی ہے اور ماسوا چند کے تقریبا ہرچھوٹے ملک کو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کسی نہ کسی بڑی طاقت سے اپنی وابستگی قائم کرنی پڑتی ہے خواہ وہ خوشی سے کرے یا مجبوری سے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کے دور میں تو دنیا واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی تھی۔ ہر چند کہ اسوقت بھی غیر وابستہ تحریک کے نام سے ملکوں کا ایک گروپ قائم ہوا۔ لیکن اس سے وابستہ ملکوں میں بھی بھاری اکثریت ان ملکوں کی تھی جو کسی نہ کسی بڑی طاقت سے نظریاتی و معاشی طور پر یا کسی اور سبب سے وابستہ رہے۔ پھر سرد جنگ ختم ہونے اور اس وقت کے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد حالات میں مختصر وقت کے لئے کچھ تبدیلی آئی۔
لیکن کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ اور روس کے بتدریج ایک طاقت کی حیثیت سے ابھرنے اور عالمی امور میں چین کا کردار بڑھنے کے ساتھ چھوٹے اور ترقی پذیر ملکوں کے لئے پھر وہی صورت حال پیدا ہو گئی ہے جو سرد جنگ کے دور میں تھی۔ اور بڑی طاقتوں کے درمیان ان کے مفادات کے تحفظ کی کشمکش اور چپقلش چھوٹے ملکوں کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔
تاہم بعض ماہرین اس نظریے سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتے۔ اور چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کا ایک حالیہ بیان بھی غالبا اسی حوالے سے آیا ہے اور جو بظاہر جنوبی بحیرہ چین کی صورت حال کے پس منظر میں دیا گیا ہے۔ جہاں خطے کے چھوٹے ممالک پورے جنوبی بحیرہ چین کے علاقے پر چین کے دعوے کو قبول نہیں کرتے۔ اور اس سلسلے میں وہ مدد کے لئے امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اپنے بیان میں چینی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایک ایسے خطے میں ملکوں کو عالمی قوتوں کے ہاتھوں خود کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال ہونے دینے سےگریز کرنا چاہئیے۔ جسکے بقول ان کے جیو پولیٹکل اسباب کی بنا پر نئی ہیت اختیار کرنے کا خطرہ ہے۔
عالمی امور کے بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ بڑی عالمی قوتوں کے چھوٹےپڑوسی ممالک جیسے کہ جنوبی بحیرہ چین کے خطے کے ممالک ہیں۔ یوکرین یا روس کے چھوٹے پڑوسی ممالک ہیں۔ یا جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک ہیں جیسے پاکستان وغیرہ ۔ انکو یقینی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایک دوسرے کی حریف عالمی قوتوں میں سے کسی ایک سے مدد مانگیں۔
ڈاکٹر فاروق حسنات عالمی امور کے ایک ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سرد جنگ کے دور میں بنیادی توجہ فوجی اور سیکیورٹی سے متعلق امور پر تھی لیکن سرد جنگ کے بعد کے دور کی جو ایک نئی ملٹی پولر دنیا وجود میں آئی ہے۔ اسکی بنیاد اقتصادیات پر ہے۔ اور چھوٹے ممالک ہر چند کہ بڑی طاقتوں کی چپقلش کے سبب دباؤ میں رہتے ہیں۔ لیکن اگر ان کی معاشی حالت بہتر ہے تو بڑی طاقتوں کی چپقلش انہیں زیادہ متاثر نہیں کر سکتی اور اس سلسلے میں بڑی طاقتیں بھی ایک حد سے آگے نہیں بڑھتی ہیں۔ اور جب معیشت کی بات آتی ہے تو یہ بڑی طاقتیں بھی ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں۔
اور اسی لئے آج چھوٹے ممالک کے پاس یہ چوائس ہے کہ وہ کسی بھی بلاک کا حصہ نہ بنیں اور جس جانب سے انہیں اقتصادی خوشحالی ملے اس جانب جائیں۔ لیکن ہر جگہ یہ آزادی حاصل نہیں ہے۔ یوکرین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر چھوٹے ملکوں کی اقوام نہ چاہیں تو وہ کسی بھی بڑی قوت کو خود پر حاوی ہونے سے باز رکھ سکتی ہیں۔ یوکرین جیسا چھوٹا ملک روس جیسی طاقت کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ اور بقول ڈاکٹر فاروق حسنات اسکا انحصار انفرادی قومی سوچ اور خواہش پر ہے کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ کسی بڑی قوت کی حاشیہ نشینی یا اپنی آزادی اور خود مختار پالیسی۔
اس پس منظر میں چینی وزیر خارجہ کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ یہ بیان بھی ایک پیغام ہے کہ دنیا کا اقتصادی توازن نہ بگاڑا جائے۔ اسکے علاوہ جو آپ کے اپنے مفادات ہیں ان کا ایک حد میں رہ کر یعنی دوسری قوت کے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بیشک تحفظ کریں۔
ڈاکٹر سحر خان امریکہ کےکیٹو انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ چھوٹے یا ترقی پذیر ممالک بڑی طاقتوں کے اشاروں پر چلنے کے لئے اتنے بھی مجبور نہیں ہوتے۔ جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ بیشتر صورتوں میں وہ اپنے مفادات کی خاطر یا اندرون ملک اپنے حریفوں پر قابو پانے کے لئے بڑی قوتوں سے وابستگی اختیار کرتے ہیں۔ جسکی متعدد مثالیں ہم آج کی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔ اور پھر ان ملکوں کو اس کے جواب میں بڑی طاقتوں کے مطالبات پورے کرنے پڑتے ہیں اور یوں یہ ایک دوسرے کے مفادات پورے کرنے کا معاملہ بن جاتا ہے۔
چین کے وزیر خارجہ کا بیان بھی ماہرین کے بقول اسی پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ جنوبی بحیرہ چین پر اپنا حق سمجھتا ہے۔ اور اپنے موقف کے حق میں تاریخی حوالے دیتا ہے۔ جنہیں خطے کے اسکے چھوٹے پڑوسی ممالک تسلیم نہیں کرتے اور وہ چین جیسی بڑی طاقت کے مقابلے پر امریکہ سے مدد کے خواہاں ہیں۔ جسکے وہاں اپنے بھی مفادات ہیں۔ اور وہ خطے پر پوری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ جسے چین علاقے میں اپنی مکمل بالا دستی حاصل کرنے کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجھتا ہے۔
اور اسی لئے عالمی امور کے بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ چونکہ دنیا کا ہر ملک تو بڑی قوت بن نہیں سکتا۔ ملکوں میں چھوٹے بڑے اور کمزور اور طاقتور کی تقسیم باقی رہے گی اسلئے چھوٹے اور کمزور ملکوں کے پاس یہ چوائس ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے مفادات کے خلاف کام کرنے والی کسی بڑی عالمی طاقت کے خلاف اسکے پائے کی عالمی طاقت سے مدد طلب کر سکیں۔