چین کے صدر شی جن پنگ نے ملک کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ کا دورہ کیا ہے۔ جو اس خطے میں 'کریک ڈاؤن' کے بعد ان کا پہلا دورہ ہے۔
سنکیانگ میں بڑی تعداد میں ترک النسل ایغور مسلم آباد ہیں۔ بیجنگ پر اس خطے میں لاکھوں ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کو حراستی مراکز میں رکھنے کا الزام عائد کیا جاتا رہاہے۔امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے قانون ساز سنکیانگ میں چین کے اقدامات کو 'نسل کشی' قرار دیتے ہیں اور اس پر مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کئی قسم کی پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔
البتہ بیجنگ ان تمام الزامات کو مسترد کرتا ہے اور اسے 'صدی کا سب سے بڑا جھوٹ' قرار دیتا ہے۔ چین کا مؤقف ہے کہ اس کی پالیسیاں 'اسلامی انتہا پسندی' کے خطرے سے لڑنے میں مدد دیتی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق چین کے سرکاری خبر رساں ادارے 'شنوا 'نے جمعے کو رپورٹ کیا ہے کہ چینی صدر نے اس خطے کے دورے کے دوران اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت کو سراہا۔
چینی صدر نے سنکیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کور (ایکس پی سی سی) کے کام کی مبینہ طور پر تعریف بھی کی۔ یہ ایک وسیع پیمانے پر نیم فوجی تنظیم ہے جس پر امریکہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر پابندی عائد کرچکا ہے۔
شنوا نے رپورٹ کیا کہ بدھ کو خطے کے شمالی حصے میں واقع شہر شہیزی کے دورے کے دوران صدر شی نے کہا تھا کہ اس گروپ نے اصلاحات اور ترقی میں 'بڑی پیش رفت' کی ہے۔
واضح رہے کہ سال 2014 کے بعد صدر شی کا سنکیانگ کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اُس سال ایک حملے میں تین افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے تین سال بعد سنکیانگ میں ایک بڑی حراستی مہم کا آغاز ہوا تھا۔
سرکاری میڈیا فوٹیج میں شی جن پنگ کو طلبہ اور مقامی حکام سے بات کرتے ہوئے، گانا اور رقص پرفارمنس میں شامل ہوتے ہوئے اور روایتی لباس میں ملبوس رہائشیوں سے داد وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
چینی صدر کا سنکیانگ میں قیام رواں ماہ کے اوائل میں ایک سابق شورش زدہ علاقے ہانگ کانگ کے غیرمعمولی دورے کے بعد سامنے آیا ہے۔
یہی نہیں بلکہ یہ دورہ رواں سال کے آخر میں اہم پارٹی کانگریس سے قبل بھی ہے۔ جہاں اس بات کی توقع ہے کہ شی کمیونسٹ پارٹی کی دہائیوں کی نظیر کو توڑ دیں گے اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی سربراہی مسلسل تیسری مدت کے لیے حاصل کر لیں گے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن چین پر سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر قید، جبری مشقت، لازمی نس بندی اور ایغور کی ثقافتی اور مذہبی مقامات کو تباہ کرنے سمیت بدسلوکی کے الزامات لگاتے ہیں۔
البتہ چین ان دعووں کو سختی سے مسترد کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ پیشہ وارانہ اور رضاکارانہ تربیتی سہولیات کے مراکز ہیں۔
چین کا دعویٰ ہے کہ یہ الزامات امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے چین کو بدنام کرنے اور اس کے عروج کو روکنے کی سازشوں کا حصہ ہیں۔
واضح رہے کہ مئی میں چین کے ایک غیرمعمولی دورے کے دوران انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے بیجنگ پر زور دیا تھا کہ وہ سنکیانگ میں 'منصوبہ بندی اور بلا امتیاز' اقدامات سے گریز کرے۔
البتہ انہوں نے 'شدت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں' کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو تسلیم کیا تھا۔ تاہم انہوں نے اپنے اس دورے کو 'تحقیقات' کہنے سے گریز کیا تھا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔