اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ نائن الیون کے موقع پر اسامہ بن لادن کے نائب کے طور پر کام کرنے والے القاعدہ کے راہنما ایمن الظواہری زندہ ہیں اور آزادانہ طور پر پیغام رسانی کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کہ افغان طالبان اب بھی القاعدہ کے ساتھ مضبوط اتحاد رکھتے ہیں۔ دوسری جانب افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (اناما) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان کے اندر خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی طالبان حکومت کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔ اس کے علاوہ طالبان، رپورٹ کے مطابق، سابق افغان سیکیورٹی اہلکاروں ، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں جن میں ماورائے عدالت گرفتاریاں، تشدد اور ناروا سلوک، دھمکیاں اور ہراساں کرنا شامل ہیں۔
یف ڈی ڈی لانگ وار جرنل نے اقوام متحدہ کے اینالیٹکل سپورٹ اینڈ سینکشن مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایمن الظواہری نہ صرف زندہ ہیں بلکہ وہ بہت آسانی کے ساتھ پیغام رسانی بھی کر رہے ہیں۔
دہشتگردی کے امور کے بعض ماہرین ، لانگ وار جرنل کے مطابق، اس سے قبل دعوی کر چکے ہیں کہ ظواہری کی نومبر دو ہزار بیس کے آس پاس موت واقع ہو چکی ہے۔
لانگ وار جرنل نے اس ضمن میں صحافی حسن حسن کے ایک ٹویٹ کو بھی حوالہ بنایا ہے جس میں انہوں نے 13 نومبر کو لکھا تھا کہ بن لادن کے جان نشین ایمن الظواہری کی ایک ماہ قبل فطری موت واقع ہو چکی ہے۔
جرنل کے مطابق، البتہ یو این کی رپورٹ میں یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ آیا الظواہری افغانستان کے اندر متحرک ہیں یا نہیں۔
’’ رکن ممالک نے نوٹ کیا ہے کہ اظواہری کے لیے بظاہر پہلے سے زیادہ آسانی اور پیغام رسانی کی اہلیت کی خبر ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب افغانستان کے اندر طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔‘‘
القاعدہ کی افغانستان میں موجودگی، لانگ وار کے مطابق، ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ گروپ وسطی ایشیا کے جہادی گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے جیسے کہ ترکمانستان اسلامک پارٹی اور نصراللہ گروپ کے ساتھ۔ اسی طرح عبدالحکیم ترکستانی نے جوالقاعدہ و طالبان سے منسلک گروپ ترکستانی کے سربراہ ہیں، عیدالفطر افغانستان میں ادا کی تھی۔ ترکستانی کو اس سے قبل امریکہ کے محکمہ خارجہ نے القاعدہ کی مرکزی شوری کے رکن کے طور پر شناخت کیا تھا۔
یو این کی رپورٹ میں القاعدہ کے افغانستان کے اندر منسلک گروپوں کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ القاعدہ کے اندر کون جانشین بننے کے لیے قطار میں ہے اور الظواہری کے بعد گروپ کی قیادت کے لیے تیار ہے۔
اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ سیف ال عادل، ایمن الظواہری کے بعد جان نشینی کے لیےتیار ہیں۔اس کے بعد عبدالرحمن ال مغربی ہیں۔ ان کے بعد اسلامک مغرب میں القاعدہ کے سربراہ ہیں اور یزید مبراک اور ال شباب کے احمد دریے جان نشینی کے لیے قطار میں ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (اناما ) کی ایک اور رپورٹ میں افغانستان کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے اس رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔
اناما کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 17 اگست 2021 کو طالبان نے سابقہ حکومتی اہلکاروں اور افغان نیشنل سیکیورٹی اینڈ ڈیفنس فورس کے ارکان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ تاہم، یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اس عام معافی کو مستقل طور پر برقرار رکھا گیا ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مشن یا یو این اے ایم اے نے اپنی رپورٹ میں بتا یا کہ 15 اگست 2021 سے 15 جون 2022 کے درمیان ، سابق حکومتی اور سیکیورٹی اہلکاروں کے کم از کم 160 ماورائے عدالت قتل ریکارڈ کیےگئے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ وسط اگست2021 سے وسط جون 2022 کی درمیانی مدت میں 2106 شہری حملوں کی زد میں آئے، جن میں سات سو ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ اور اُن کی زیادہ تر ذمہ داری داعش فورسز پر ہے۔ موجودہ حکام حراستی مقامات میں نظربندوں کے ساتھ سلوک کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دیے ہیں اور طالبان رہنماؤں نے جنوری دو ہزار بائیس میں اس حوالے سے رہنمائی بھی فراہم کی ، تاہم مالی مجبوریوں کی وجہ سے اس حوالے سےپیش رفت رکی ہوئی ہے۔
عوامی زندگی میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور شرکت کسی بھی جدید معاشرے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے،رپورٹ کے مطابق ، خواتین اور لڑکیوں کو گھر بھیجنے سے افغانستان ، انکی شرکت سے ہونے والے فائدوں سے محروم ہو جاتا ہے۔
رپورٹ میں انٹیجینس کے عہدیداروں کی ان لوگوں کے ساتھ سخت رویے کی بھی نشان دہی کی گئی ہے ۔ UNAMA کی رپورٹ میں ان مواقع کی تفصیلات دی گئ ہیں جب انٹیلییجنس حکام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ۔ ان خلاف ورزیوں میں ماورائے عدالت سزائے موت۔ اذیت رسانی اور بد سلوکیاں شامل ہیں۔ اسکے علاوہ من مانے طور پر گرفتاریاں اور نظر بندی بھی اس عمل کا حصہ ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کے روزجاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ کو درست تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا کہ "ملک میں ماورائے عدالت قتل یا گرفتاریاں نہیں ہو رہی ہیں ۔ ایسا کرنے والا مجرم سمجھا جائے گا اور اسے شرعی قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس معاملے پر اقوام متحدہ مشن کی رپورٹ درست نہیں بلکہ پروپیگنڈا ہے۔
اسکے علاوہ اقوام متحدہ کی تعزیرات کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان اور القائدہ کے درمیان تعلق اور مضبوط ہوا ہیے اور القائدہ طالبان کے سپریم لیڈر مولوی ہیبت اللہ اخوند زادے کے ساتھ وفاداری کے اپنے عہد کی تجدید کر رہی ہے۔
بدھ کے روز جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انکے درمیاں تعلقات ٹوٹنے کے کوئ آثار نہیں ہیں۔
رپورٹ میں تاہم یہ بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں مسلح تصادم واضح طور پر کم ہوا ہے اسی طرح طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد عام شہریوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کے واقعات میں بھی کمی آئی ہے۔