یکم اگست 2022 کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے ایمن الظواہری کا بنیادی تعلق مصر سے تھا اور پیشے کے لحاظ سے وہ فزیشن یعنی ڈاکٹر تھے۔ بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق الظواہری القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے معالج بھی رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق وہ امریکہ کے شہر نیویارک پر 11 ستمبر 2001 کے حملے کی منصوبہ بندی کا حصہ تھے ۔ ایمن الظواہری نے اس دہشت گرد حملے کے تقریبًا چھ ماہ بعد اپریل 2002 میں ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ 19 بھائی (حملہ آور) جنہوں نے اس مقصد کے لیے اپنی جان دی، خدا نے ان کو فاتح بنا دیا ہے اور ہم اس پر اب خوشی منا رہے ہیں۔
القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی، نائن الیون کے حملے کے دس سال بعد پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں امریکی اسپیشل فورسز کے آپریشن میں ہلاکت کے بعد الظواہری نےاس دہشت گرد تنظیم کی قیادت سنبھالی۔
سی این این کے مطابق وہ امریکی فورسز کے خلاف لڑائی کے لیے پیغامات جاری کرتے رہے۔ کئی مواقع پر انہوں نے امریکی قیادت کا مذاق بھی اڑایا اور طعن و تشنیع پر مبنی پیغامات جاری کیے۔
آن لائن انسائیکلوپیڈیا ' برٹینیکا' کے مطابق الظواہری 19 جون 1951 میں مصر میں پیدا ہوئے۔ وہ فزیشن تھے اور نظریاتی طور پر القاعدہ کے بہت بڑے حامی تھے۔
وہ قاہرہ سے کئی میل دور معادی نامی قصبے میں پلے بڑھے۔ اگرچہ الظواہری کے والدین کا تعلق بڑے اور نمایاں خاندانوں سے تٍھا، لیکن الظواہری اور ان کے بہن بھائیوں کی ایسے ماحول میں پرورش ہوئی جو زیادہ خوش حال نہیں تھا۔
الظواہری بچپن سے ہی مذہبی رجحان رکھتے تھے اور وہ برٹینیکا انسائیکلوپیڈیا کے مطابق، سنی مکتبِ فکر کے احیا کے علم بردار سید قطب کے تصورات سے بہت متاثر تھے۔
انسائیکلوپیڈیا کے مطابق الظواہری جب15 سال کے ہوئے تو انہوں نے" خود کو وقف کرنے والے نوجوانوں کا ایک گروپ" تشکیل دیا جس کا مقصد مصر کی حکومت کا تختہ الٹ کر اسلامی قوانین نافذ کرنا تھا۔
قاہرہ یونیورسٹی سے میڈیکل تعلیم کے بعد الظواہری نے سرجری میں سپیشلائز کیا اور پھر فوج میں بطور سرجن کام کرنے لگے۔
الظواہری پاکستان کب آئے؟
ایمن الظواہری 81 –1980 میں ایک بین الاقوامی تنظیم ریڈ کریسینٹ کے ہمراہ یک ریلیف ورکر یعنی امدادی کارکن کے طور پر پاکستان کے شہر پشاور آئے جہاں انہوں نے افغان جنگ کے دنوں میں پاکستان ہجرت کر کے آنے والے افغان شہریوں کی صحت کی دیکھ بھال کا کام کیا۔ اس دوران وہ کئی مرتبہ افغانستان بھی آتے جاتے رہے اور وہاں جنگ کا براہِ راست مشاہدہ بھی کیا۔
الظواہری کے واپس مصر لوٹنے کے بعد وہ ان چند سو عسکریت پسندوں میں شامل تھے جنہیں مصر کے صدر انور سادات کے اکتوبر 1981 میں قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ الظواہری غیر قانونی طور پر اسلحہ رکھنے کے مرتکب قرار پائے اور انہیں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔
برٹینیکا کے مطابق، جیل میں قید کے دوران الظواہری کو انٹیلی جنس آفیسروں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو ان سے ان کے رابطوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے۔
سن 1984 میں جیل سے رہائی کے بعد الظواہری نے مصر کو خیرباد کہا اور جدہ چلے گئے ۔اس کے بعد انہوں نے پشاور اور پھر افغانستان کی راہ لی۔ اس سفر کے دوران ان کا اسامہ بن لادن کے ساتھ تعلق قائم ہوا جو ایک امیر کبیر شخص تھے اور افغانستان کے اندر سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کا حصہ بن چکے تھے۔
سن 1988 میں الظواہری اس وقت موجود تھے جب القاعدہ کی بنیاد رکھی گئی۔
الظواہری 'ایجپشئین اسلامک جہاد' نامی ایک تنظیم کے سربراہ بھی رہے۔ اس تنظیم کے لیے تربیتی کیمپس سوڈان میں بنائے گئے۔ تنظیم کا مقصد مصر کے اہداف، بشمول اس کے سرکاری عہدیداروں کو نشانہ بنانا تھا۔ اس تنظیم نے پاکستان کے اندر مصر کے سفارت خانے کو بھی ہدف بنایا۔ جون 1995 میں مصر کے صدر حسنی مبارک کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ بین الاقوامی برادری کے دباؤ پر سوڈان نے ایمن الظواہری اور بن لادن کو ملک بدر کر دیا۔
برٹینیکا کے مطابق الظواہری کی اس کے بعد کی سرگرمیاں زیادہ واضح نہیں ہیں۔ البتہ انہوں نے بظاہر کئی یورپی ملکوں کا سفر کیا جن میں سوئٹزرلینڈ، بلغاریہ اور نیدرلینڈز شامل ہیں۔
سن 1996 میں روسی عہدیداروں نے الظواہری کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ چیجنیا میں داخل ہونے کے لیے غیر قانونی طور پر اس کی سرحد پار کر رہے تھے۔ وہ چیچنیا میں 'ای آئی جے' نامی تنظیم کی بنیاد رکھنے جا رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ الظواہری نے چھ ماہ روس کی جیل میں گزارے لیکن بظاہر روسی انٹیلی جنس ان کی شناخت سے نابلد رہی اور انہیں تب خبر ہوئی جب الظواہری رہا ہو چکے تھے۔
سال 2001 میں بن لادن کی تنظیم القاعدہ اور الظواہری کی تنظیم 'ای آئی جے' کا انضمام ہوا اور الظواہری امریکی بحری جہاز ایس کول اور نائن الیون پر حملے کی منصوبہ بندی کا حصہ رہے۔
نائن الیون کے حملے کے بعد امریکہ نے جب افغانستان میں فوجیں اتاریں تو الظواہری بھی بن لادن کی طرح مرکزی اہداف میں شامل تھے ۔ سی این این کے مطابق الظواہری نے افغانستان کے اندر کسی ایک جگہ پڑاؤ نہیں کیا بلکہ مسلسل اپنے ٹھکانے بدلتے رہے۔ اسی دوران وہ تورا بورا کے علاقے میں امریکی کارروائی میں بال بال بچے لیکن اس کارروائی میں ان کی اہلیہ اور بچے مارے گئے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے ایمن الظواہری کی گرفتاری میں معاون اطلاعات فراہم کرنے والے کے لیے 25 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔
جون 2021 میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں الظواہری کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں کسی جگہ مقیم ہیں۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یکم اگست 2022 کو قوم سے خطاب کے دوران تصدیق کی کہ ایمن الظواہری کو ڈرون حملے میں ہلاک کیا جا چکا ہے اور اس طرح انصاف ہو گیا ہے۔