ایسے اشاروں مل رہے ہیں کہ القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ، دونوں دہشت گرد گروہوں کے حامیوں نے گزشتہ ماہ طالبان کی جانب سے ملک پر قبضے سے حوصلہ پا کر اپنی نگاہیں افغانستان پر مرکوز کر لی ہیں۔
پچھلے ایک ہفتے کی ابتدائی رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ دہشت گردوں کے درمیان ایسی گفتگو میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس میں افغانستان جانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے، لیکن امریکی انٹیلیجنس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے منگل کو کہا کہ کچھ دہشت گردوں نے افغانستان کی جانب اپنا پہلے ہی سفر شروع کر دیا ہے۔
سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ کوہن نے واشنگٹن کے باہر منعقدہ انٹیلی جنس کے ایک اجلاس میں پینل ڈسکشن کے دوران کہا، "ہم پہلے ہی سے افغانستان میں القاعدہ کی ممکنہ نقل و حرکت کے کچھ آثار دیکھ رہے ہیں۔
"لیکن یہ ابتدائی دن ہیں،" انہوں نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں دوبارہ تشکیل پا سکتی ہے۔ "ہم واضح طور پر اس پر بہت گہری نظر رکھیں گے۔"
امریکی انٹیلی جنس حکام نے القاتدہ کے ارکان کی افغانستان کی طرف واپسی کے متعلق تفصیلات بتانے، یا اس بارے میں کچھ کہنے سے انکار کیا کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں، جب کہ آن لائن پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں القاعدہ کے امین الحق کو اپنے آبائی وطن ننگرہار کی جانب لوٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ تورا بورا کی لڑائی کے دوران القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کے ساتھ تھا۔
دیگر خفیہ ایجنسیوں میں بھی اس بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں جیسا کہ اس وقت ایران میں القاعدہ کے کچھ اہم رہنما موجود ہیں جن کے متعلق خدشات ہیں کہ وہ اس گروپ کے سیکنڈ ان کمانڈ سیف العدل کی طرح افغانستان واپس جائیں گے جہاں ان کے مضبوط تعلقات ہیں۔
سی آئی اے کے انتباہ کی طرح دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے بین الاقوامی عہدیداروں اور تجزیہ کاروں کے بھی یہ خدشات ہیں کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
اسلامک اسٹیٹ گروپ، القاعدہ اور طالبان کی نگرانی کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کے کوآرڈینیٹر ایڈمنڈ فٹن براؤن نے جمعہ کو ایک آن لائن فورم کو بتایا، "اس بارے میں ہونے والی گفتگو شک و شبہے سے بالاتر ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ یقینی طور پر ان میں افغانستان جانے کے لیے ایک بہت توانا جوش و جذبہ پایا جاتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار چارلس لیسٹر کی طرح دیگر تجزیہ کاروں نے بھی القاعدہ کے اہم حریف گروپ دولت اسلامیہ (داعش) کے حامیوں کی جانب سے افغانستان میں ان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس خطرے سے متعلق ایک سوال پر گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ سے بات کرنے والے امریکی حکام نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ تشویش کی بات ہے اور امریکہ کے افغانستان سے انخلا مکمل کرنے سے پہلے ہی، امریکی خفیہ ایجنسیوں نے افغانستان آنے والے غیر ملکی جنگجوؤں سے خبردار کرنا شروع کر دیا تھا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے اب تشویش کی بات یہ ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد وہاں زمین پر ہونے والی پیش رفت ان کی نگاہوں سے اوجھل رہے گی۔
سی آئی اے کے کوہن نے کہا، "افغانستان میں ہماری موجودہ صلاحیت وہ نہیں ہے جو چھ ماہ پہلے یا ایک سال پہلے تھی۔" تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ناقابل عبور رکاوٹ نہیں ہے۔۔
انہوں نے کہا، "ہمیں ایجنسی اور ہمارے شراکت داروں کے ساتھ ان علاقوں میں جہاں جانے کی اجازت نہیں ہے، انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کا تجربہ ہے اور ہم زمین پر اپنی موجودگی کے بغیر ایسا کر رہے ہیں۔" انہوں نے کہا "ہم افغانستان میں اسی طرح کے بہت سی طریقوں کا استعمال کریں گے جن کو ہم بنیادی طور پر استعمال کرتے رہے ہیں، میرا خیال ہے کہ ہم وہاں ممکنہ حد تک کام کرنے کے طریقے بھی تلاش کر لیں گے۔"
اب تک کی خفیہ اطلاعات یہ بتاتی ہیں کہ القاعدہ اور آئی ایس خراسان دونوں اپنی صلاحیتوں کو دوبارہ مستحکم بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
خطے میں انسداد دہشت گردی کے لیے کام کرنے والے دیگر مغربی عہدیداروں اور امدادی کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ القاعدہ مستقبل قریب میں نمایاں طور پر سامنے نہیں آئے گی، تاہم آئی ایس خراسان گروپ کئی مہینوں سے افغانستان اور پڑوسی ممالک میں اپنا انفراسٹرکچر قائم کر رہا ہے۔