دس جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کے وزراء خارجہ اس ہفتے کمبوڈیا میں اپنے اجلاس میں ان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے جو میانمار میں تصادم سے لیکر متنازعہ جنوبی بحیرہ چین تک اور ایسٹ تیمور کو تنظیم میں رکنیت دینے تک کے موضوعات پر ارکان کے درمیان پائے جاتے ہیں۔
کمبوڈیا کے انسٹیٹیوٹ فار کو آپریشن اینڈ پیس کے سینئیر ایڈوائیزر بریڈلی مرگ کہتے ہیں کہ توقع ہے کہ فلپائن جہاں اب نئے صدر فرڈی ننڈ مارکوس کی حکومت ہے جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے کو اٹھائے گا کیونکہ صدر مارکوس دو ہزار سولہ کے دی ہیگ کی عدالت کے ثالثی ایوارڈ یا فیصلے پر دوبارہ زور دے رہے ہیں جو اس نے چین کے سلسلے میں دیا تھا۔ اس رولنگ کے تحت آبی راستے پر بیجنگ کے علاقائی دعوں کو مسترد کردیا گیا تھا۔
دس سال قبل جب نوم پن کے پاس آخری بار صدارت تھی تو اجلاس کے بعد وزراء خارجہ تنظیم کی پینتالیس سالہ تاریخ میں پہلی بار کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں ناکام رہے کیونکہ کمبوڈیا نے اعلامیے میں چین اور جنوبی بحیرہ چین میں فلپائن اور ویت نام کے ساتھ اختلاف کا ذکر کرنے پر اعتراض کیا تھا ۔
اسے میزبان ملک کی ایک بڑی سفارتی غلطی تصور کیا گیا اور اسی وقت سے کمبوڈیا کے ساتھ اختلافات ابھرنا شروع ہو گئے جو چین سے بڑے فائدے حاصل کرنے والا ملک ہے اور جسے اکثر مبصرین گروپ کے اندر چین کی نیابت کرنے والا رکن یا چین کی پراکسی قرار دیتے ہیں۔
آسیان میں شامل زیادہ تر ملک چاہتے ہیں کہ جنوبی بحیرہ چین کے حوالے سے ایک متحدہ محاذ ہونا چاہیے لیکن ناقدین دعوی کرتے ہیں کہ بیجنگ ہر ملک سے اس بارے میں الگ الگ بات کرنا چاہتا ہے ۔
اور مرگ نے مزید کہا کہ یہ وہ موضوع نہیں ہے جس پر کمبوڈیا در حقیقت آسیان کی سربراہ کانفرنس میں تبادلہ خیالات چاہتا ہے لیکن اگر فلپائن نے اپنے موقف کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ ہی کرنا چاہتا تو پھر ہوسکتا کہ میٹنگ میں یہی موضوع چھایا رہے۔
تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سال کے اجلاس کے سربراہ ہن سین کی آسیان اور میانمار کی فوجی حکومت کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کے سبب بھی گروپ میں اختلافات نظر آتے ہیں اور گزشتہ ہفتے وہاں جمہوریت کی وکالت کرنے والے چار افراد کو موت کی سزا دئیے جانے کی کارروائی نے صورت حال کو بدتر کردیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہا کہ تین ملکوں انڈونیشیا ملیشیا اور برونائی کا ایک گروپ بھی ابھرا ہے جو مذہبی بنیاد پر میانمار کے روہیینگیا مسلمانوں سے ہمدردی رکھتا ہے وہ بھی وہاں کی فوجی حکومت کو گروپ میں واپس لانے کی مخالفت کرتا ہے جس پر فروری دو ہزار اکیس کی بغاوت کے بعد گروپ میں پابندی لگا دی گئی تھی۔
آسیان کے پارلیمینٹیرینس فار ہیومن رائٹس نے تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور لاؤس پر میانمار کی فوجی حکومت کی مدد کا الزام لگایا اور گروپ کے تمام رکن ملکوں پر میانمار کی نیشنل یونٹی حکومت کو تسلیم کرنے پر زور دیا جو معزول لیڈر آنگ سان سوچی کے حامیوں نے قائم کی ہے۔
اور امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بھی یہ کہتے ہوئے اپنی آواز ان لوگوں کی آواز میں شامل کردی کہ انہیں آسیان کی جانب سے میانمار کی فوجی حکومت اور اور اسکے لیڈر من آن ہیلنگ پر کوئی دباؤ ڈالنے میں ناکامی پر مایوسی ہوئی ہے۔
بنکاک میں امریکی وزیر خارجہ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ میرے خیال میں بدقسمتی سے یہ کہنا درست ہے کہ ہم نے کوئی مثبت پیش رفت نہیں دیکھی۔ مذاکراتی پارٹنرز کے طور پرآسٹریلیا، جاپان، انڈیا اورجنوبی کوریا سمیت دس اضافی ممالک سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ بلنکن بھی میٹنگ میں شریک ہونگے لیکن امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں غربت اب بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور لوگ مشکل حالات میں زندگی گذار رہے ہیں۔
میٹنگ کے ایجنڈے پر ایسٹ تیمور کی رکنیت کا معاملہ بھی ہے جس نے گروپ کا گیارہواں رکن بننے کے لئے بہت کوشش کی ہے۔ اور جسے تقریباً تمام ہی رکن ملکوں کی حمایت حاصل ہے۔