رسائی کے لنکس

ہم جنوب مشرقی ایشیا پر تسلط کے خواہاں نہیں: شی جن پنگ


چین کے صدر شی آسیان کی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔
چین کے صدر شی آسیان کی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔

پیر کے روز چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ان کا ملک جنوب مشرقی ایشیاء پر حاوی ہونے یا اپنے چھوٹے پڑوسی ملکوں کے خلاف جارحانہ رویہ نہیں رکھتا۔ انہوں نے یہ بات ایک ایسے موقع پر کہی جب جنوبی بحیرہ چین کا علاقائی تنازع جاری ہے۔

صدر شی نے جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی ایسوسی ایشن 'آسیان' کی کانفرنس کے ایک ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ یہ کانفرنس چین اور آسیان ممالک کے درمیان تعلقات کی تیسویں سالگرہ کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھی۔

اس کانفرنس میں میانمار شریک نہیں ہوا۔ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد فوجی حکومت آنے کی وجہ سے اس کے فوجی لیڈروں یا ان کے نمائندوں کو آسیان کے اجلاس میں شرکت سے منع کر دیا گیا تھا۔

علاقے میں اس کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر و و نفوذ کے بارے میں علاقائی ملکوں کی تشویش کو دور کرنے کے لیے چین بارہا کوشش کرتا آ رہا ہے، جب کہ پورے جنوبی بحیرہ چین پر ملکیت کے چینی دعوے کے بارے میں آسیان رکن ممالک، ملائیشیا، ویت نام، برونائی اور فلپائین کا اختلاف بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی، شینہوا کے مطابق چین کے صدر شی نے کہا کہ چین بالا دستی اور طاقت کے بل پر سیاست کا بھرپور طور سے مخالف ہے اور اس کی خواہش ہے کہ پڑوسی ملکوں سے دوستانہ تعلقات پروان چڑھیں۔ چین کبھی بھی کسی علاقے میں اپنی بالادستی کا خواہاں نہیں رہے گا اور نہ چھوٹے ملکوں کو بزور طاقت دبائے گا۔

شی کے اس خطاب سے چند ہی روز پہلے چین کے کوسٹ گارڈ بحری جہازوں نے فلپائن کی دو کشتیوں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا تھا، جو اپنے فوجیوں کے لیے رسد لے کر متنازع جنوبی بحیرہ چین کے اتھلے پانیوں میں جا رہی تھیں۔

فلپائن کے صدر نے اس اجلاس میں اس واقعہ کا ذکر بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ حالیہ کارروائی سخت ناپسندیدہ تھی اور ہمیں اس واقعہ اور اس طرح کے دیگر واقعات پر تشویش ہے۔

ان کے دفتر سے جاری اس بیان میں فلپائن کے صدر نے کہا کہ چین کو سمندروں کے بارے میں اقوام متحدہ کے 1982 کے کنونشن کا احترام کرنا چاہیے، جو سمندری علاقوں میں ملکوں کے حقوق کے بارے میں وضاحت کرتا ہے۔ اسی طرح 2016 میں ہیگ کی عالمی عدالت نے جنوبی بحیرہ چین پر چین کے مکمل ملکیتی دعوے کو تسلیم نہیں تھا۔ چین اس مصالحتی حکم نامے کو تسلیم نہیں کرتا۔

فلپائن کے صدر نے کہا کہ ہم سب کو ان قوانین پر عمل کر کے جنوبی بحیرہ چین پر امن، مستحکم اور خوشحال علاقہ رہنے دینا چاہیے۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم اسماعیل صابری یعقوب نے بھی اپنی تقریر میں اس مسئلے کا بارے میں کہا کہ تسلیم شدہ بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کی روشنی میں جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے کو پر امن طور پر حل کیا جانا چاہیے۔ ملائیشیا تمام ملکوں پر زور دیتا ہے کہ وہ جنوبی بحیرہ چین کو ایک سمندری علاقہ بنائیں، جو پر امن اور مستحکم ہو اور تجارتی مقاصد کے لیے کھلا ہو۔ تمام فریقوں کو اشتعال انگیزی سے بچنے کے لیے صبر و تحمل سے کام لینا ہو گا، تاکہ صورت حال مزید پیچیدہ نہ ہو اور علاقے میں کشیدگی میں اضافہ نہ ہونے پائے۔

چین اس بحری علاقے میں اپنی موجودگی کو نہ صرف بڑھاتا آ رہا ہے بلکہ اس میں واقع جزیروں پر اپنے اڈے تعمیر کر رہا ہے، تاکہ وہ مکمل طور سے اس بحری علاقے کے وسائل پر قابض ہو سکے۔ چین کی مضبوط بحری فوج، کوسٹ گارڈ اور بحری ملیشیا علاقائی ملکوں کو ان کے اقتصادی زونز میں ہر قسم کی کارروائی سے باز رکھنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ چین اس علاقے میں امریکہ یا کسی اور غیر ملکی افواج کے آپریشنز کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ آسیان ممالک کئی برسوں سے چین کے ساتھ اس معاملے پر مذاکرات کرتے رہے ہیں، مگر اب تک اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔

چین کے آسیان کے رکن ممالک کمبوڈیا اور لاؤس سے گہرے تعلقات ہیں، جب کہ میانمار کی موجودہ فوجی حکومت پر بھی تنقید کرنے سے گریز کرتا ہے۔ چین کی خواہش تھی کہ آسیان کے دسوں ملک اس کانفرنس میں شرکت کرتے، مگر دو سفارت کاروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ برونائی نے میانمار کی شمولیت پر اعتراض کیا، برونائی اپنی باری کے تحت آج کل اس گروپ کا صدر ہے۔

میانمار کی وزارت اطلاعات نے اپنے جاری کردہ بیان میں اس اجلاس میں شرکت کے لیے چینی دعوت نامے پر چین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آسیان کے بعض رکن ملکوں نے اس کے غیر سیاسی نمائندے کو شریک نہ ہونے دیا۔ میانمار کی فوج کی طرف سے قائم کردہ حکومت بار بار زور دیتی رہی ہے کہ وہ اس علاقائی بلاک میں اپنے ملک کی نمائندگی کا حق رکھتی ہے۔

انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے کہا کہ چین اور آسیان ملکوں کے درمیان اقتصادی رابطے مضبوط ہوئے ہیں اور پچھلے 12 برسوں سے چین آسیان ممالک کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ 1991 میں تجارت کا حجم آٹھ اعشاریہ تین چھ بلین ڈالر تھا جو بڑھ کر پچھلے سال 685 اعشاریہ دو آٹھ ہو گیا۔ اسی عرصے کے دوران دو طرفہ سرمایہ کاری 310 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ انڈونیشیا کے صدر نے مزید کہا کہ آسیان ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والا چوتھا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم سب بین الاقوامی قوانین کا احترام کریں تو باہمی اعتماد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

(اس خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG