القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی کابل میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد دہشت گرد تنظیم کے نئے ممکنہ سربراہ کے لیے مختلف نام سامنے آ رہے ہیں۔
ایمن الظواہری کی ہلاکت کو اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کے لیے دوسرا بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق القاعدہ کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تنظیم کے اندر موجود کئی سینئر کمانڈر فیورٹ سمجھے جا رہے ہیں۔
سیف العدل
مصر کی اسپیشل فورسز میں بطور اہل کار خدمات سرانجام دینے والے سیف العدل کا شمار القاعدہ کے چوٹی کے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ امریکہ نے اُن کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔
القاعدہ کا حصہ بننے سے قبل وہ ریاسست مخالف مصر کی اسلامک جہاد آرگنائزیشن میں شامل تھے , وہ 1988 میں افغانستان آ گئے تھے جہاں وہ سوویت یونین کے خلاف مسلح مزاحمت میں شامل ہو گئے۔
القاعدہ کے ملٹری چیف اور تیسرے بڑے رہنما سمجھے جانے والے سیف العدل پر 1998 میں نیروبی (کینیا) اور داراسلام (تنزانیہ) میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے۔سات اگست 1998 کو ہونے والے ان بم دھماکوں میں 224 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو گئے تھے۔
اُن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے نوے کی دہائی میں پاکستان، افغانستان اور سوڈان میں القاعدہ کے لیے تربیتی مراکز بھی قائم کیے۔
سن 2004 میں سعودی عرب میں ایک چھاپے کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کو اُن کی ایک ڈائری ملی۔ القاعدہ میں اُن کا کردار ایک ٹرینر، ملٹری کمانڈر اور اُسامہ بن لادن کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے والی ٹیم کو مضبوط بنانے کا تھا۔
امریکی تفتیش کاروں نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ العدل سن 2002 میں پاکستان کے شہر کراچی میں قتل ہونے والے امریکی شہری ڈینئل پرل کے قتل میں بھی ملوث تھے۔
تفتیش کاروں نے بتایا تھا کہ سیف العدل نے القاعدہ رہنما اور نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جانے والے خالد شیخ محمد کے ساتھ ڈینئل پرل کو اغوا کرنے کے منصوبے پر بات کی تھی۔
سیف العدل کو اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کا قائم مقام سربراہ بھی بنایا گیا تھا۔
ابو عبیدہ یوسف العنابی
ابو عبیدہ یوسف العنابی 2020 سے الجزائر میں القاعدہ کی شاخ اسلامی مغرب (اے کیو آئی ایم) کے سربراہ ہیں۔ اس سے قبل وہ تنظیم میں مختلف عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔
الجزائر سے تعلق رکھنے والے ابو عبیدہ (اے کیو آئی ایم) کے میڈیا آپریشنز کی نگرانی کرتے رہے ہیں۔ سن 2013 میں اُنہوں نے ایک ویڈیو بیان میں دنیا بھر میں فرانسیسی مفادات پر حملوں کی دھمکی دی تھی، جب فرانسیسی فورسز نے مالی میں دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے فوجیں بھیجیں تھیں۔
ترپن سالہ ابو عبیدہ نوے کی دہائی میں الجزائر میں حکومت اور اسلامی فورسز کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی میں شریک رہے ہیں۔
القاعدہ کی شاخ اسلامی مغرب نے ساحل ریجن میں پائی جانے والی بے چینی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہاں اپنی جڑیں مضبوط کیں اور غیر ملکیوں کے اغوا سمیت دہشت گردی کی کئی کارروائیاں کیں۔
ساحل ریجن میں موریطانیہ، کیمرون، گیمبیا، نائیجریا، مالی، نائجر، سینی گال، چاڈ اور برکینا فاسو کے علاقے آتے ہیں۔
ابو عبیدہ سے قبل عبدالمالک دروکدال خطے میں القاعدہ کی اس شاخ کے سربراہ تھے۔ ماہرین کے مطابق عبدالمالک نے خطے میں القاعدہ کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ساحل ریجن میں نئی جہادی تنظیمیں پنپنے کے باعث القاعدہ کا ساحل ریجن میں اثر و نفوذ اب کم ہوا ہے۔
عبدالرحمٰن المغربی
ایمن الظواہری کے داماد عبدالرحمٰن المغربی کا شمار بھی القاعدہ کے مرکزی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔
مراکش سے تعلق رکھنے والے القاعدہ رہنما عبدالرحمٰن المغربی امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کو بھی مطلوب ہیں, جو ان سے القاعدہ کی رُکنیت حاصل کرنے کے معاملے پر پوچھ گچھ کرنا چاہتی ہے۔
جرمنی سے سوفٹ ویئر انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کرنے والے عبدالرحمٰن المغربی بعدازاں افغانستان آ گئے، جہاں اُنہیں القاعدہ کے مرکزی میڈیا ونگ کا انتظام سونپا گیا۔
القاعدہ سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے دوران اُن کے کمپاؤنڈ سے ملنے والی دستاویزات میں عبدالرحمٰن المغربی کو القاعدہ میں 'اُبھرتا ہوا ستارہ' قرار دیا گیا تھا۔ وہ القاعدہ کے پاکستان اور افغانستان آپریشنز کے جنرل منیجر کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔