ایران کی وزارت خارجہ نے سلمان رشدی پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں ایران کے کسی بھی اعتبار سے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
وزارت کے ترجمان نے پیر کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ ایران سمجھتا ہے کہ اس سلسلے میں خود ان کی ذات اور ان کے حامیوں کے علاوہ کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اتوار کو رشدی کے ایجنٹ نے بتایا کہ مکمل صحت یابی کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوگا، تاہم ان کی حالت بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔
سلمان رشدی کے بیٹے، ظفررشدی نے ایک بیان میں کہاکہ "اگرچہ زندگی کو بدل کر رکھ دینے والے زخم شدید ہیں، لیکن وہ ان کا معمول کے مطابق خوش باش اوربہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں اوران کی حس مزاح برقرار ہے۔"
سلمان رشدی پر حملے کے الزام میں گرفتار 24 سالہ ہادی مطر کو ہفتے کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ جہاں اس نے صحت جرم سے انکار کیا۔ اس پر اقدام قتل اور قتل کے الزامات عائد کیے گئے ہیں ، ملزم کو ضمانت نہیں دی گئی اور وہ زیر حراست ہے۔ مشتبہ شخص کا تعلق ریاست نیوجرسی کے علاقے فیئر ویو سے ہے۔
واضح رہے کہ سلمان رشدی کی کتاب ’ سیٹینک ورسز‘ پر ایران میں 1988 میں پابندی عائد کی گئی تھی۔دنیا بھر میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نےان کی اس کتاب کی اشاعت پر غم و غصّے کا اظہار کیا تھا۔
کتاب کی اشاعت کے بعد آیت اللہ خمینی نے رشدی کے قتل کا ایک فتویٰ یا فرمان جاری کیا تھا۔
فتوے کے اعلان کے بعد سلمان رشدی نے نو سال تک مکمل تنہائی کی زندگی گزاری تھی، اس کے بعد وہ رفتہ رفتہ معمول کی زندگی میں لوٹ آئے۔
(خبر کا کچھ مواد اے پی، رائیٹرز اور اے ایف پی سے لیا گیا ہے)