بنگلہ دیش کے دریائے میگھنا کے کنارے ایک چھوٹی سی بستی رام داس پور کے جیول کا گھر سیلابی ریلے میں بہہ گیا تھا اور اب وہ ڈھاکہ کی ایک کچی آبادی میں کرائے کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
جیول اپنا کنبہ پالنے کے لیے گھروں سے کوڑا کرکٹ اکھٹا کرنے کا کام کر رہے ہیں اور انہیں یہ کام سخت ناپسند ہے۔ مگر ان کے پاس کوئی اور متبادل نہیں۔
آب و ہوا کی تبدیلی اور موسموں کی شدت کا نشانہ صرف رام داس پور کے جیول اور ان کا کنبہ ہی نہیں بنا بلکہ بنگلہ دیش میں ہزاروں افراد کو سیلابوں کے باعث اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ جب کہ دنیا بھر میں اس نوعیت کی نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گلوبل وارمنگ سے جڑی ایک نئی قسم کی نقل مکانی ہے۔ جس میں ہر آنے والے برس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی بینک کی گزشتہ برس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی ہر سال لاکھوں لوگوں کو پناہ گزین بننے پر مجبور کر رہی ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ 2050 تک جنوبی ایشیا میں اندرونِ ملک بے گھر ہونے والوں کی کل تعداد کا تیسرا حصہ بنگلہ دیش میں ہو گا۔
بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کے ایک بڑے اور اہم دریا گنگا کا ڈیلٹائی علاقہ ہے۔ ہمالیہ سے نکلنے والا یہ دریا ہندوؤں کے لیے بہت مقدس ہے اور ان کے اہم مذہبی تہوار اس دریا سے جڑے ہیں۔ یہ دریا جب بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے تو اسے'میگھنا' کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ دریا لگ بھگ 130 جھوٹی شاخوں میں تقسیم ہو کر مختلف علاقوں سے گزرتا ہوا خلیج بنگال میں جا گرتا ہے۔
بنگلہ دیش میں جون سے اکتوبر تک خوب بارشیں ہوتی ہیں جس کا نتیجہ اکثر اوقات سیلابوں اور طغیانیوں کی شکل میں نکلتا ہے اور دریائے میگھنا اپنے کناروں سے باہر نکل کر فصلوں اور آبادیوں کو بہا لے جاتا ہے اور عشروں سے وہاں یہی ہو رہا ہے۔
جیسے جیسے کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے دریائے میگھنا کے سیلابوں کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے نقل مکانی کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور دریا کے کناروں پر آباد لوگ طغیانوں میں اپنا سب کچھ کھونے کے بعد ڈھاکہ یا کسی دوسرے محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں، جس سے شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور حکومت کو اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ پناہ گزینوں کی آباد کاری اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کرنا پڑ رہا ہے۔
رام داس پور کے جیول کا مکان اور زمین سیلابی ریلوں میں بہہ گئی تھی اور ان کے پاس گزر اوقات کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ وہ کہتے کہ "سیلاب نے صرف میرے ہی گھر کو نہیں نگلا بلکہ آس پاس کے کئی اور مکان بھی اس میں بہہ گئے اور ہم بے گھر ہو گئے۔"
آرزو بیگم، جیول کی اہلیہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں "زیادہ پرانی بات نہیں ہے، دریا ہماری بستی سے کچھ فاصلے پر بہتا تھا۔ رام داس پور کی آبادی دو ہزار تھی۔ وہاں دکانیں تھیں، چائے کے کھوکھے تھے، وہاں زندگی تھی، رونقیں تھیں۔ پھر میگھنا نے اپنے جبڑے کھولے اور رام داس پور کی جانب بڑھنا شروع کر دیا۔ پچھلے سال سیلاب آنے سے قبل وہ ہمارے گھر کی دہلیز کے ساتھ بہہ رہا تھا اور پھر دہلیز رہی اور نہ ہی گھر بچا۔ منہ زور طغیانی نے سب کچھ نگل لیا اور ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ ڈھاکہ آنا پڑا۔"
آرزو بیگم لوگوں کے گھروں میں جا کر کام کرتی ہیں۔ وہ مہینے بھر میں چار ہزار ٹکے کما لیتی ہیں جو سارے کا سارا جھونپڑی کے کرائے پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ان کے شوہر جیول کی تنخواہ 12 ہزار ٹکے ماہانہ ہے جو ساری کھانے پینے اور گھر کے دیگر اخراجات پر اٹھ جاتی ہے۔ ان کے پاس بچے کو پڑھانے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔ وہ پریشان ہیں کہ تعلیم کے بغیر بچے کا مستقبل کیا ہو گا۔
آرزو بیگم اپنے گاؤں رام داس پور کو یاد کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہاں ہمارا اپنا گھر تھا۔ اس کا کرایہ نہیں دینا پڑتا تھا۔ ہم ماہانہ اتنا کما لیتے تھے کہ اچھا گزارہ ہو جاتا تھا۔ مگر ڈھاکہ میں زندگی بہت مشکل ہے اور رام داس پور میں جہاں ہمارا گھر تھا، وہاں اب میگھنا بہتا ہے۔
جیول اور آرزو کچھ عرصہ پہلے اپنا گھر دیکھنے کے لیے رام داس پور گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے گھر کا تو ذکر ہی کیا، پچھلے سال کے سیلاب میں بستی کے اور بھی کئی مکان بہہ گئے تھے۔ بے گھر ہونے والے بڑے شہروں میں چلے گئے یا انہوں نے عارضی پناہ گاہوں میں سر چھپا لیا۔ رام داس پور اب ایک تباہ حال اجڑی ہوئی بستی کا منظر پیش کرتاہے جہاں میگھنا بے رحم ہو گیا ہے۔
جیول اور آرزو بیگم صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ بارشیں زیادہ ہو رہی ہیں، سیلاب بھی پہلے سے زیادہ آ رہے ہیں جس سے تباہی اور نقصان بھی پہلے سے زیادہ ہو رہا ہے۔ انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور ان کی مشکلات کیوں بڑھ رہی ہیں۔
شاید انہوں نے گلوبل وارمنگ کا لفظ سنا ہو، مگر انہیں اس کے متعلق زیادہ پتا نہیں ہے۔
بنگلہ دیش کی طرح پاکستان کے کئی علاقوں، بالخصوص بلوچستان میں شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں سیلابوں نے تباہی مچا رکھی ہےجس سے آبادیوں، مال مویشیوں اور املاک کے بھاری نقصان کے ساتھ ساتھ اب تک ساڑھے چھ سو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ یورپ میں جہاں گرمیاں عموماً معتدل ہوتی ہیں، گرمی کی شدید لہر کی لپیٹ میں ہے۔ بارشیں نہ ہونے کے باعث کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور دودھ کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ پناہ گزینوں اور مہاجرین کی ایک نئی قسم کو جنم دے رہی ہے۔ جیسے جیسے کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، موسموں کی شدت بھی بڑھ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں پناہ گزین کی تعداد میں بھی سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔
گلوبل وارمنگ کے اضافے میں شاید بنگلہ دیش کا زیادہ حصہ نہ ہو، لیکن اس کا پڑوسی ملک بھارت، امریکہ اور چین کے بعد کاربن اور گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاربن گیسیں ہی گلوبل وارمنگ میں اضافے کا اہم سبب ہیں۔
امریکہ نے حال ہی میں کاربن گیسوں کے اخراج پر کنٹرول کے لیے ایک بڑے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس پر عمل درآمد ہونے اور نتائج سامنے آنے میں وقت لگے لگا۔ جب تک امیر ملک اپنے ہاں کاربن گیسوں کے اخراج پر قابو نہیں پا لیتے، اس وقت تک بنگلہ دیش اور کم آمدنی والے دیگر ممالک آب و ہوا کی تبدیلی کی قیمت چکاتے رہیں گے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ موادخبر رساں ادارے ' ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔