نیو یارک کی پبلک لائبریری کی سیڑھیوں پر رشدی کے دوست اور ساتھی تخلیق کار ،ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے جمع ہوئے۔انہوں نے ساتھ گزارے جانے والے اچھے دنوں کو یاد کیا، ان کی کتابوں سے اقتباس پڑھے ، یہ اجتماع ایک تقریب میں انہیں زخمی کئے جانے کے ایک ہفتے بعد ہوا۔ ان کے بیٹے ظفر رشدی نے جو اپنے والد کے ساتھ ہیں، اس اجتماؑع پر اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ایک مجمع کو یہاں لائبریری کے باہرجمع دیکھنا زبر دست ہے۔
اداکار آصف منڈوی نے رشدی کے آنے والے ناول’وکٹری سٹی‘ سے ، جو انہوں نے زخمی ہونے سے پہلے مکمل کیا تھا،ایک اقتباس پڑھا۔’ اب میں بذات خود کچھ بھی نہیں۔جو کچھ باقی ہے وہ لفظوں کا شہر ہے۔واحد فاتح الفاظ ہی ہیں۔
اس اجتماع میں ٹینا براؤن، کرن ڈیسائی اور پلٹزر انعام یافتہ مصنف جیفری یوجینائیڈس بھی شامل تھے، جنہوں نے سلمان رشدی کی مکمل بحالی کی خواہش کو شئیر کیا،اوراظہار کی آزاد ی کے ایک ایسے علمبردار کی حیثیت سے رشدی کی زندگی کی کہانیاں سنائیں جنہوں نے انہیں اور بہت سوں کو انسپائر کیا اور ان کے ان ناولوں، تقریروں اور مضامین سے اقتباس پڑھے، جن میں سٹانک ورسز بھی شامل تھا۔
رشدی اپنے اس ناول کی اشاعت کے بعد، جس کی وجہ سے ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ خمینی نے 1989 میں انکے قتل کا فتویٰ دیا تھا، برسوں تک روپوش رہے تھے۔ تاہم گزشتہ دو عشروں سے وہ آزادی کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔
ایک گھنٹے جاری رہنے والی اس تقریب کا اہتمام لائبریری، رشدی کے پبلشز، پنگوئن رینڈم ہاؤس اور ادب اور انسانی حقوق کی تنظیم’پین‘ نے کیا تھا، جس کے رشدی صدر رہ چکے ہیں۔
پین کی سی ای اوسوزین نوسل نے کہا کہ "وہ الفاظ اور اپنے کام کی وجہ سے حملوں کا نشانہ بننے والے قلم کاروں کے ایک ناقابل تسخیر چیمپئن تھے۔’آج ہم سلمان کو محض جو کچھ انہوں نے برداشت کیا، اس کے لئے ہی سیلیبریٹ نہیں کریں گے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم ان کی تخلیق کردہ کہانیوں، کرداروں، استعاروں اور امیجز کے لئے بھی ، جو انہوں نے دنیا کو دئے۔"
اس ریلی میں رشدی کا کوئی نیا بیان تو شامل نہیں تھا، تاہم نوسل نے بتایا کہ وہ اس تقریب کے بارے میں جانتے ہیں، اور انہوں وہ اقتباس بھی تجویز کئے ہیں جو یہاں پڑھے گئے۔
اس اجتماع سے صرف ایک روز قبل ، میول، نیو یارک میں ایک جج نے ان کے چوبیس سالہ حملہ آور ہادی کی ضمانت کی درخوست مسترد کر دی ہے۔ ہادی نے جو جیل میں ہے اخبار نیو یارک پوسٹ کو بتایا کہ وہ رشدی سے ان کے اسلام دشمن ہونے کی وجہ سے نفرت کرتا ہے، اور اس نے آیت اللہ خمینی کیلئے عقیدت کا اظہار کیا۔
رشدی نے ایک بار اپنی تحریروں کے دفاع میں لکھا تھا،"کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اسے ناراض نہ کیا جائے، میں نے کسی بھی منشور میں یہ حق نہیں دیکھا۔"اور اس اجتماع میں شامل افراد اسی کا اعادہ کر رہے تھے۔
(اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)