ویب ڈیسک۔ ایغور تارکین وطن نے چین کی جانب سےسنکیانگ علاقے سے متعلق عالمی رائے کو گمراہ کرنے کی کوششوں کے بارے میں امریکہ محکمہ خارجہ کی رپورٹ کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی طرف سے یہ طریقہ کار نیا نہیں ہے۔
واشنگٹن میں قائم “کیمپین فار ایغورز” کی ایگزیکیٹو ڈائیریکٹر رشان عباس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہم برسوں سے ا یغور نسل کشی کے سلسلے میں چین کی گمراہ کن مہم کے بارے میں بتاتے آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آخر کار امریکی محکمہ خارجہ نے اس شدت کو تسلیم کرلیا جس سے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ اور اس بر وقت رپورٹ کے ذریعے اس کی تصدیق بھی کر رہا ہے۔
یہ رپورٹ بدھ کے روز جاری ہوئی جس میں چین پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ان لوگوں کو پریشان اور ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو ایغور مسلمانوں کے ساتھ چین کے سلوک پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔
اس رپورٹ میں جسکا عنوان ہے’PRC efforts to manipulate Global Public Opinion on Xinjiang ‘ کہا گیا ہے کہ بیجنگ سنکیانگ کے بارے میں عالمی سطح پر ہونے والے تبادلہ خیال پر غلبہ حاصل کرنے اور آزاد ذرائع سے اس بارے میں آنے والی رپورٹوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے سرگرمی سے کوششیں کرتا ہے۔
بہت سی مغربی حکومتیں اور حقوق انسانی کے گروپس چین پر ری ایجوکیشن کیمپوں میں دس لاکھ ٹرکک مسلمانوں کی جن میں زیادہ تر ایغور ہیں, نسل کشی , ان سے جبری مشقت لینے اور من مانے طور پر انہیں نظر بند کرنے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
تاہم چین بار بار ان الزامات کو مسترد کر چکا ہے اور اسکا کہنا ہے کہ یہ سہولتیں پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے مراکز ہیں جنکا مقصد وہاں زیر تربیت لوگوں کے انتہا پسندانہ نظریات کی درستگی اور دہشت گردی کا انسداد کرنا ہے۔
ایغورز سے لی جانے والی جبری مشقت کو روکنے کے نقطہ نظر سےجون میں امریکہ میں ایک قانون نافذ کیا گیا ہے جسکا مقصد سنکیانگ خطے سے درآمد کردہ سامان کے بارے میں یہ چھان بین ضروری قرار دی گئی کہ وہ سامان ان لوگوں نے تو نہیں بنایا جن سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ اور جب تک اس بات کا معقول ثبوت موجود نہ ہو کہ جبری مشقت کا شکار ہونے والوں سے اس مال کی تیاری میں مدد نہیں لی گئ ہے، اس سامان پر پابندی ہو گی۔
واشنگٹن میں قائم “کیمپین فار ایغورز” کی رشان عباس کہتی ہیں کہ ا نہیں امید ہے کہ یہ رپورٹ پبلک میں بیداری پیدا کرے گی۔