’’یہ ایک جہد مسلسل ہے۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج اپنی ساکھ کا خیال رکھنا ہے ۔ اس وقت مختلف اطراف سے انفارمیشن کی بھر مار اور پھر معاشرے میں تقسیم کے عمل کو دیکھتے ہوئے صحافی کی ذمے داری میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘
وائس آ ف امریکہ کے پوڈکاسٹ ’’کل اور آج‘‘ میں یہ کہنا تھا پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا
’’صحافی کی تحریروں کے ساتھ ساتھ اس کی پہچان بھی سب کے سامنے ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر آپ کی تحریروں سے کسی کو اختلاف ہے تو آپ کو نقصان پہنچانا بہت آسان ہو جاتا ہے ۔‘‘
متعدد ماہرین صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا کرتے ہیں۔گزشتہ چند دہائیوں کے دوران صحافتی شعبے نے بہت تبدیلیاں دیکھیں اور یہ ارتقائی عمل سے گزرا ہے۔ خاص طور پرآج کی ایک ایسی دنیا میں جہاں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا نے کئی جہتیں کھول دی ہیں۔ اس نئے دور میں مین سٹریم میڈیا کے چیلنجز کیا ہیں ؟
صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس سے انٹر نیشنل پریس فریڈم ایوارڈ حاصل کرنے والے، مظہر عباس نے کل اور آج کے دور کی صحافت کا موازنہ 1982 کے سال کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے شروع کیا۔ یہ وہ سال تھا جب انہوں نے صحافت میں قدم رکھا تھا۔ اور یہ زمانہ سینسرشپ کا زمانہ تھا۔
’’ اس وقت اخباراور نیوز ایجنسیاں ہی کام کرتی تھیں ۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سرکاری اداروں کے طور پر اپنی نشریات لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ ان دنوں شام کے اخبارات بھی مقبول ہوا کرتے تھے ۔ پہلے انگریزی اور پھر اردو اخبارات بھی شام کو نکالے جانے لگے۔ اخبار کی کاپی اشاعت سے پہلے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں چیک کی جاتی تھی اور ڈیوٹی پر مامور انفارمیشن افسر سرکاری نکتہ نظر سے مخالفت کا اظہار کرنے والی خبروں کو نکال دیتا تھا۔ ان خبروں کی جگہ خالی رہ جاتی تھی ‘‘۔
مظہر عباس نے اس حوالے سے اس دور میں اپوزیشن کے اخبار’ امن ‘کا بھی تذکرہ کیا جس کی بیشتر خبریں سینسر شپ کی نظر ہو جاتی تھیں ۔
’’پھر ایک وقت آیا جب یہ محسوس کیا گیا کہ اخبار میں خالی جگہ دیکھ کر لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ حکومت مخالف خبروں کو نکال دیا گیا ہے تو پھر یہ حکم دیا گیا کہ خالی جگہ پر کچھ دوسری خبریں لگا دی جائیں ۔ اس کے بعد بعض اخبارات اسے ایسی غیر ملکی خبروں سے بھرتے تھے جو کچھ نہ کچھ ملک کے اس وقت کے حالات سے مطابقت رکھتی تھیں ۔ ‘‘
گزشتہ چار دہائیوں میں کون سا دور صحافت کے لیے سب سے مشکل دور لگا؟اور آج کا صحافی غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے میں کتنا آزاد ہے ؟
اس سوال پر مظہر عباس کہتے ہیں:
’’ مشکلات تو ہر دور میں رہیں لیکن آج کے مسائل اس لیے بڑھ گئے ہیں کہ اب خطرے کا عنصر بڑھ گیا ہے۔ صحافیوں کی پکڑ دھکڑ تو اس وقت بھی ہوتی تھی لیکن انھیں غائب نہیں کیا جاتا تھا۔ صحافیوں کو اس وقت بھی گرفتار کیا جاتا تھا لیکن معلوم ہوتا تھا کہ وہ جیل میں ہیں ۔ اب الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے صحافتی شعبے کی پہنچ زیادہ ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اقتدار کے حلقوں میں حساسیت بھی زیادہ ہو گئی ہے ‘‘۔
مظہر صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آزادی اظہار کے ساتھ ساتھ جس سطح کی ذمہ داری کا خیال رکھا جانا چاہیے، اس کا مظاہرہ کم ہوتا ہے۔
’’ یہ بھی درست ہے کہ کچھ صحافی بھی اس حد تک ذمے دار ی کا مظاہرہ نہیں کرتے جتنا پرنٹ میڈیا کے زمانے میں کیا جاتا تھا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے پہچان کے عمل کو آسان کر دیا ہے اور صحافی زیادہ ولنریبل (کمزور) ہو گیا ہے۔ اس کی تحریروں کے ساتھ ساتھ اس کی پہچان بھی سب کے سامنے ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر تحریروں سے کسی کو اختلاف ہے تو نقصان پہنچانا بہت آسان ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں صحافیوں کو ہلاک کرنے کے زیادہ واقعات سامنے آ رہے ہیں ۔ٹیلی ویژن ایکسپوژر کے بعد یہ صورتحال پیدا ہوئی ‘‘۔
’’ جہاں تک جانبدار رویوں کا تعلق ہے تو پہلے مختلف جماعتوں کے اپنے اخبارات ہوتے تھے اور ان کا مؤقف رکھنے والے ان کے ساتھ کام کرتے تھے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مختلف میڈیا آؤٹ لیٹس یا ٹیلی ویژن چینلز خصوصی انداز فکر رکھتے ہیں اور وہاں کام کرنے والے صحافی کھل کر اسی انداز میں بات کرتے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا سے لوگوں کے ایک بڑے گروپ تک ہر خبر پہنچتی بھی ہے اور پھر انہیں لوگوں نے اپنے اپنے یو ٹیوب چینلز بھی بنا لیے ہیں جہاں وہ انفرادی سطح پر اور بھی کھل کر اپنے مؤقف کو بیان کرتے ہیں ‘‘
مظہر عباس کے ساتھ سوشل میڈیا اور صحافتی ذمے داریوں پر بھی بات چیت ہوئی۔ ان سے یہ بھی سوال کیا کہ وہ پاکستان میں صحافت کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں؟
’’یہ ایک جاری سٹرگل (جدوجہد) ہے۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج اپنی ساکھ کا خیال رکھنا ہے تاکہ لوگ آپ کی بات پر۔ آپ کی دی ہوئی خبر پر بھروسہ کر سکیں ۔ کیونکہ اس وقت مختلف اطراف سے انفارمیشن کی بھر مار اور پھر معاشرے میں تقسیم کے عمل کو دیکھتے ہوئے صحافی کی ذمے داری میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘
(مظہر عباس کے ساتھ تفصیلی گفتگو سننے کے لیے سٹوری میں موجود پہلے لنک پر کلک کریں)