خیبرپختونخوا کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بانی رہنما علی وزیر کی چوتھے مقدمے میں ضمانت منظور کر لی گئی ہے۔ اس سے قبل علی وزیر کو تین مقدمات میں ضمانت دی گئی تھی۔
علی وزیر کو 16 دسمبر کو پشاور میں گورنر ہاؤس کے سامنے اس علامتی احتجاجی دھرنے سے گرفتار کیا گیا تھا جو آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے متاثرین کی برسی کے موقع پر منعقد کیا گیا تھا۔
علی وزیر کے وکیل قادر خان ایڈووکیٹ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ منگل کو علی وزیر کے خلاف چوتھے اور آخری مقدمے کی سماعت انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نمبر 12 میں ہوئی، عدالت نے ضمانت کی درخواست منظور کر لی ہے اور انہیں ایک لاکھ روپے کے مچلکے پرضمانت دی گئی۔
قادر خان نے کہا کہ علی وزیر کے خلاف چار معلوم مقدمات میں ایک کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان، دوسرے کیس میں سندھ ہائی کورٹ اور تیسرے کیس میں ٹرائل کورٹ نے ضمانت دی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ علی وزیر کے خلاف یہ چوتھا مقدمہ تھا جس میں ضمانت ہوئی ہے اور اب ضمانت کی شرائط پوری ہونے کے بعد علی وزیر کو رہا کر دیا جائے گا۔
پشاور میں پی ٹی ایم کے ذرائع نے بتایا کہ علی وزیر کو رہا کرنے کے بجائے انہیں بنوں میں درج ایک اور مقدمے میں پیش کرنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے ایک ٹویٹ میں علی وزیر کی ضمانت منظور ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ساتھ دو اور ساتھیوں کی ضمانت کی درخواستیں منظور ہوئی ہیں۔
علی وزیر کو منگل کو جس مقدمے میں ضمانت ملی ہے یہ مقدمہ 2018 میں کراچی کی بوٹ بیسن رجسٹری میں دائر کیا گیا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن سمیت دیگر تنظیمیں بھی علی وزیر کی فوری رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ علی وزیر علالت کے باعث چند روز سے کراچی کے جناح اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ علی وزیر کو پیٹ میں درد کی شکایت ہے اور مزید تشخیص کے لیے ٹیسٹ جاری ہیں۔
علی وزیر کے ایک ساتھی نور اللہ ترین کا کہنا ہے کہ کل سے علی وزیر کی طبیعت قدرے بہتر ہے اور ان کی تکلیف میں کمی آئی ہے تاہم ٹیسٹوں کے بعد تشخیص ہو گی اور پھر ان کا مکمل علاج ہو سکے گا۔
علی وزیر کو 2020 میں کراچی کے سہراب گیٹ کیس میں پشاور سے گرفتار کرکے کراچی لایا گیا تھا اور وہ اس کیس میں جیل میں تھے۔