ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ ۔۔۔میٹھے بول اور نرم لہجے میں معاشرے کی قدروں کے خستہ حال سکوں سے زنگ اتارنے کی کوشش میں اکثر صاف گو ئی اور مسکراہٹ کی مجسم تصویر بن جاتی ہیں۔ ایک ماہر تعلیم اور دانشور تو ہیں ہی، ان کےپاس تعلیمی شعبے میں معتبر کرنے والے عہدوں کی بھی کمی نہیں رہی۔ جیسے کہ پروفیسر ایمریٹس ، سابق پرنسپل ،نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی سابق سربراہ اور پنجاب میں ایک سابق نگران صوبائی وزیر i
اپنی پاڈ کاسٹ کے لئے بات کرنے کا موقعہ ملا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں ملک اور معاشرے کے بدلتے چلن کو دیکھ کر متفکر نظر آرہی تھیں ۔ انہوں نے کہا "مجھے یہ چیز پریشان کرتی ہے کہ ہمیں ہو کیا گیا ہے ۔ ہم اتنے وحشت زدہ کیسے ہو گئے ہیں ۔ خوف تو اس وقت ہونا چاہئے تھا جب ہمیں علم نہیں تھا ۔ جب ہم نے چیزیں دریا فت بھی نہیں کی تھیں ۔ آج جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے چیزیں بھی دریافت کر لیں ۔ علم بھی حاصل کر لیا لیکن ہماری پراگندہ خیالی اور وحشت بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ اور ایک جملے میں کہوں تو یہ کہ ہم مل کر جینا بھول گئے ۔
پاکستان اپنے قیام کے پچھتر برس پورے کر رہا ہے،اس سال میں وہ پاکستان کو کہاں کھڑا دیکھتی ہیں؟۔۔۔میں نےیہ سوال ا پنی پاڈ کاسٹ کے سب ہی مہمانوں سے پوچھا تھا۔۔لیکن کسی نے یہ نہیں کہاکہ ’’ بہت ہی اچھا سوال ہے۔ بہت ہی نازک سوال ہے اور بہت ہی ٹیڑھا سوال بھی ہے""۔۔یہ تو اکثر لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان بحیثیت ملک اور پاکستانی بحیثیت قوم وہاں نہیں کھڑے، جہاں انہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن عارفہ سیدہ کہتی ہیں کہ آجکل گزرنے والے دن پاکستان ہی کے لیے نہیں دنیا بھر کے لیے تشویش کے دن ہیں ۔
( آج کا پوڈکاسٹ سننے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں)
وہ کہتی ہیں ، ان کے تجربے نے انھیں بتایا ہے کہ تاریخ اور ادب انسانی تجربات کی قابل یقین دستاویز ہوتے ہیں اورہوا یہ ہے کہ ہم اپنے معاشروں میں تاریخ کو مسخ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ ادیب اور شاعر تو پھر اشاروں کنایوں میں بات کر جاتے ہیں اور جنھیں سمجھنا ہوتا ہے وہ سمجھ بھی جاتے ہیں ۔
""میرا یقین ہے کہ زندگی، بسر کرنے والوں کو املا لکھواتی ہے لیکن ہم سب یہ املا خود لکھوانا چاہتے ہیں۔۔۔۔ اور یہ ہو نہیں سکتا۔ اس کے لیے ایک ٹھہراؤ , رواداری اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ رویے صرف اس وقت بدل سکتے ہیں جب ہم یہ سمجھ لیں کہ زندگی قابل احترام ہے اور ہر زندگی گزارنے والا قابل احترام ہے اور ہم خاص طور پر دوسروں کی وہ بات سن سکیں جہاں وہ ہم سے اختلاف کر رہے ہیں لیکن ہم نے اختلاف کے معنی تکبر سمجھ لیے ہیں اور اس قدر انا پرست ہو چکے ہیں کہ ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم سب کچھ خرید سکتے ہیں ""
یہاں انہوں نے اقبال عظیم کا ایک شعر سنایا:
بدلنا ہے تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں
فقط ساقی بدلنے سے میخانہ نہ بدلے گا
اپنے کل پر نظر ڈالیں تو ایک سادگی، محبت اور کشادگی کا احساس ہوتا ہے لیکن آج معاشرے کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ سب نے خود کو الگ الگ خانوں میں بند کر لیا ہے۔ انسانی رشتوں میں لگتا ہے دوریاں آ گئی ہیں اور زندگی جیسے الجھ گئی ہے۔ کہاں غلطی ہو گئی؟
’’ غلطی یہ ہوئی کہ معاش تو مل گئی لیکن علم نہیں ملا ۔ پیسہ تو بہت آ گیا لیکن احساس لٹا دیا ہم نے ۔ اب ہمارا یہ احساس کہ ہم سب کچھ خرید سکتے ہیں ۔ پہلے ہم چیزیں خریدتے تھے لیکن اب ہم لوگوں کی آرزوئیں خریدتے ہیں ۔ پہلے ہم سامان خریدتے تھے لیکن اب ہم لوگوں کی بے بسی اور مجبوری خریدتے ہیں۔ اب ہم نے جنس بھی بدل دی اور خریدار بھی بدل دیے تو پھر شرکت کا احساس کیسے رہے ۔ برداشت، رواداری اور شرکت جیسے لفظ اور جذبے ہم سے چھٹ گئے ہیں ۔ جو میسر ہے اگر ہم اس کے لیے شکر گزار نہ ہوں تو بات بنتی نہیں ۔ زندگی سے محبت کرنا سیکھ لیں تو بہت سارا فرق محسوس ہو نے لگے گا۔‘‘
ڈاکٹر عارفہ کو لاہور سے اپنے تعلق پر ناز ہے۔۔ ان کے بقول، انھیں فخر ہے کہ وہ اس شہر میں رہتی ہیں جہاں سید علی ہجویری آرام کرتے ہیں ۔ان کے چاہنے والے لاہور کو داتا کی نگری کا نام دیتے ہیں ۔ وہ داتا صاحب کا ایک دلچسپ قصہ سنانے کے بعد کہتی ہیں کہ ""ہم نے معلوم نہیں کس چیز سے کس چیز کا سودا کر لیا ہے""۔
وہ کہتی ہیں کہ معاشرے کے دو بڑے مسائل تکبر اور دوسروں کو ساتھ شامل نہ کرنا ہے۔
’’ آجکل اقتدار کا نشہ سب سے بڑا ہے ۔ مولانا رومی کا قول ہے کہ اصل اختیار اس کے پاس ہے جو ترک کرنا جانتا ہے ۔ ہمارے لیڈروں کو ترک کرنا نہیں آتا ‘‘۔
وہ عدم برداشت کو احترام آدمیت کے منافی قرار دیتی ہیں۔
’’ عدم برداشت کے رویے ہم سے دوسروں کا احترام چھین لیتے ہیں ۔ ہم ایک دوسرے سے ایسے سوال پوچھتے ہیں جو صرف خدا کو پوچھنے کا حق ہے ۔‘‘
یہ اور ایسی بہت سی باتیں سننے کے لیے کلک کیجئے ہماری پاڈ کاسٹ کے لنک پر اور ہمیں بتایئے کہ آپ کو ہماری یہ پاڈ کاسٹ کیسی لگی؟