رسائی کے لنکس

سیاسی بے چینی کا خاتمہ؛ کیا صدر علوی کی کوششیں کامیاب ہو سکیں گی؟


پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ملک میں جاری سیاسی بے یقینی کے خاتمے کے لیے مفاہمت میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے جس کے بعد بعض حلقے یہ اُمید ظاہر کر رہے ہیں کہ ملک میں پانچ ماہ سے جاری سیاسی بے چینی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ تاہم بعض مبصرین کہتے ہیں کہ فریقین کے درمیان بداعتمادی بہت بڑھ چکی ہے۔

مقامی ٹی وی چینل 'دنیا نیوز' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عارف علوی کا کہنا تھا کہ انتخابات کے معاملے پر حکومت اورحزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان امور طے کرنے کے لیے ایوانِ صدر کے دروازے کھلے ہیں۔

صدر عارف علوی کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور حالیہ سیلاب کے باعث ملک کو معاشی و انتظامی مسائل کا بھی سامنا ہے۔

ان کے بقول سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاری کےلیے بیٹھیں تو میثاقِ معیشت کے بنیادی معاملات پر بھی فیصلے کریں۔

واضح رہے کہ پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف پہلے ہی ملک میں وسیع تر اتفاق رائے پر زور دیتے ہوئے 'گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ' کی پیشکش کرچکے ہیں۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی کی جانب سے گرینڈ قومی ڈائیلاگ کی بات کی گئی ہے۔ اس سے قبل بھی سیاسی رہنما اور رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد اس طرح کے ڈائیلاگ کی بات کرتے رہے ہیں۔

صدر عارف علوی کا تعلق موجودہ حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے ہے، جن کی جماعت نے حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کر رکھا ہے۔

'یہ پیشکش اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے بغیر نہیں ہو گی'

تجزیہ کار سجاد میر کہتے ہیں کہ صدر عارف علوی کی جانب سے یہ پیشکش اسٹیبلیشمنٹ کی منشاکے بغیر نہیں ہوگی اور وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اور عمران خان کے درمیان بات چیت کی کوئی صورت پیدا کی جائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ صدر نہ صرف ملک کے آئینی سربراہ ہیں بلکہ ماضی کی روایات کو دیکھتے ہوئے وہ اسٹیبلیشمنٹ کے نمائندے کے طور پر بھی دیکھے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بنا پر صدر کی طرف سے لیے گئے کسی بھی ایسے اقدام کو اسٹیبلیشمنٹ کی خواہش کے طور پر دیکھا جائے گا۔

سجاد میر نے کہا کہ عمران خان بظاہر یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ حکومت سے بات نہیں کریں گے لیکن جب چیئرمین نیب کے تقررکا مرحلہ آیا تو کہا گیا کہ صدر عارف علوی اس بارے میں حکومت سے مشاورت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ عارف علوی سیاسی سوچ رکھنے والے جمہوری آدمی ہیں اور چاہتے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان دوریاں کم کی جائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں عمران خان کے لیےبھی بہترین راستہ یہی ہے کہ صدر کے ذریعے بات چیت کا آغاز کیا جائے۔

دوسری جانب صحافی رضا رومی بھی سمجھتے ہیں کہ عارف علوی کی وفاداری عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ ہے لیکن مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے وہ اسٹیبلیشمنٹ کی سوچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عارف علوی کی اس کوشش کو اسٹیبلیشمنٹ اور عمران خان کے درمیان معاملات ٹھیک کرانے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جائے گا۔

رضا رومی کے بقول اس عمل میں انہیں یقیناً اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوگی۔

تجزیہ نگار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ عارف علوی کی مفاہمت کی پیش کش عمران خان کی سوچ کی عکاسی نہیں کرتی۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان تواتر سے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں انکے خیال میں اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کی حمایت تو درکنار عارف علوی کو اپنی جماعت سے بھی تائید بھی نہیں ملے گی۔

ان کے بقول تحریک انصاف اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان تعلقات کی جو صورت حال ہےاس میں نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ عارف علوی کی پیش کش کے پیچھے کھڑی ہو گی۔

'حکومت عارف علوی کی پیشکش قبول کرسکتی ہے'

کیا حکومت عارف علوی کی پیشکش کو خوش آمدید کہے گی؟ اس کے جواب میں سجاد میر نے کہا کہ اتحادی حکومت خاصی حد تک عارف علوی سے تعاون کو تیار ہو سکتی ہے۔

سجاد میر کے بقول اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کو اندازہ ہوگا کہ عارف علوی کی اس پیشکش کے پیچھے یقیناً اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت بھی ہوگی لہٰذا وہ اس موقع کو ضائع نہیں کریں گے۔

'مجھے ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:44 0:00

رضا رومی سمجھتے ہیں کہ حکومت بھی عارف علوی کی اس پیشکش پر مذاکرات کے لیےتیار ہوجائے گی کیوں کہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیےکوئی اور راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ انتخابات کے وقت کا تعین کیا جائے۔

کیا عمران خان مفاہمت کے لیے آمادہ ہوجائیں گے؟

کیا عارف علوی حکومت سے بات چیت کے لیےعمران خان کو قائل کرسکیں گے؟ اس پر سجاد میر نے کہا کہ عارف علوی کی اس پیشکش میں عمران خان کی آمادگی ہو سکتا ہے کہ شامل ہو۔

ان کے بقول عمران خان کو معلوم ہے کہ عارف علوی جماعت سے مخلص ہیں اور عارف علوی کو یہ اعتماد ہے کہ دیرینہ تعلق کی بنا پر وہ عمران خان کو بات چیت پر قائل کرلیں گے۔

سجاد میر نے کہا کہ یہ عمل کامیاب ہوتا ہے یا نہیں لیکن فوج، عمران خان اور حکومت کے لیے ایوان صدر سیاسی بات چیت کے آغاز کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔

رضا رومی بھی یہی سمجھتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول عمران خان براہ راست حکومت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں، لہٰذا ان کے لیے بھی بہتر راستہ یہی دستیاب ہے۔

تاہم سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عارف علوی کی مفاہمت کی پیشکش ان کی اپنی خواہش ہوسکتی ہے جو کہ وقت کا تقاضہ بھی ہے ۔لیکن عمران خان شاید اسے قبول نہ کریں۔

XS
SM
MD
LG