امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کو ایک بار پھر یوکرین میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
امریکہ کے نشریاتی ادارے 'سی بی ایس نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں صدر جو بائیڈن کا زور دیتے ہوئے کہنا ہے کہ ان ہتھیاروں کا استعمال’ مت کرو، مت کرو، مت کرو‘۔ ان کا یہ انٹرویو امریکہ میں اتوار کی شب نشر ہوگا۔
اس انٹرویو کے دوران امریکہ کے صدر، روس کے یوکرین کے خلاف کیمیائی یا جوہری ہتھیار استعمال کیے جانے پر واشنگٹن کے ردِ عمل پر تبصرہ نہیں کریں گے۔
صدر جو بائیڈن کا اس انٹرویو کے جاری کیے گئے حصے میں روس کی جانب سے کیمیائی یا جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے حوالے سے کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے پہلے سے بھی زیادہ قابل نفرت ہو جائیں گے۔
اگر روس ایسا کوئی بھی اقدام کرے تو اس پر امریکہ کی پالیسی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان ہتھیاروں کا استعمال ہی اس پر ردِ عمل کا تعین کرے گا۔
یہ امریکہ کے صدر کی طرف سے پوٹن کو پہلی تنبیہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی یورپی یونین، جی سیون ممالک کے سربراہان اور نیٹو اراکین کے ساتھ مارچ میں ملاقات میں بھی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ یوکرین میں کسی بھی قسم کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال پر نیٹو ردِ عمل دے گا۔
بائیڈن کا پوٹن کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر وہ یہ ہتھیار استعمال کرتے ہیں، تو وہ رد عمل دیں گے۔ ان کے بقول اس ردِ عمل کا انحصار ان ہتھیاروں کے استعمال پر ہوگا۔
اس کے ایک ماہ بعد روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے روس کے سرکاری ٹی وی چینل پر گفتگو میں تھا کہ جوہری جنگ کے خطرات موجود ہیں، جس پر ردِ عمل دیتے ہوئے صدر بائیڈن نے روس کے وزیرِ خارجہ کو غیر ذمہ دار قرار دیا تھا۔
جو بائیڈن کے بقول کسی کو بھی جوہری ہتھیاروں کے استعمال یا اس کے استعمال کی ضرورت کے امکان سے متعلق غیر ضروری تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔
یوکرین پر حملے کے کچھ دن بعد ہی پوٹن نے سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد پہلی بار روس کی نیوکلیئر فورسز کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم دیا تھا۔
ان کے اس اقدام پر جواب میں وائٹ ہاؤس نے قومی سلامتی کے حکام کی ایک ٹیم تشکیل دی۔
یہ ٹیم روس کی یوکرین یا اس کے پڑوسی ممالک کے ساتھ ساتھ نیٹو کے ہتھیاروں سے لیس بیڑوں یا یوکرین کے لیے جانے والی امداد پر ممکنہ کیمیائی، حیاتیاتی یا جوہری حملوں کی صورت میں ممکنہ ردِ عمل کا تعین کرنے کے لیے تشکیل دی گئی۔
امریکہ میں قائم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے مطابق روس سال 2000 میں اپنے فوجی حکمت عملی میں تبدیلی کی تھی جس کے مطابق بڑے پیمانے پر جارحیت کے جواب میں جوہری ہتھیاروں کے پہلے استعمال کی اجازت شامل تھی۔
اس سے قبل فوج کے لیے متعین 1997 تک متعین طریقہ کار کے مطابق جوہری ہتھیاروں کے پہلے استعمال کی اجازت صرف روسی فیڈریشن کے وجود کو خطرات کی صورت میں تھی۔
نئی روسی ڈاکٹرائن کے مطابق پہلی بار یہ اجازت دی گئی تھی کہ روس کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ردِ عمل میں جوہری ہتھیاروں کو پہلے استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔
دریں اثنا روس کی جانب سے یوکرین کے جوہری پلانٹ کو نشانہ بنانے سے یورپ میں تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ’آئی اے ای اے‘ کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی نے ہفتے کو آگاہ کیا کہ یورپ کا سب سے بڑا جوہری پلانٹ ایک بار پھر قومی گرڈ سے بجلی حاصل کر رہا ہے۔
گروسی نے متنبہ کیا کہ پلانٹ کی عمومی صورتِ حال اس وقت تک غیر یقینی ہے جب تک روس افواج اس جوہری تنصیب کے آس پاس کے وسیع علاقے میں گولہ باری کر رہی ہے۔
آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ جوہری پلانٹ روسی کنٹرول میں ہے تاہم یوکرین کے حکام اس کی کارروائیاں سنبھال رہے ہیں۔