رسائی کے لنکس

پاکستان سے نہیں صرف کشمیری نوجوانوں سے بات کریں گے: بھارتی وزیرِ داخلہ


بھارت کے وزیرِ داخلہ امِت شاہ نے پاکستان کے ساتھ تنازع کشمیر پر بات چیت کو خارج ازامکان قرار دیتے ہوئے کہا ہے اگر بات چیت ہو گی تو صرف کشمیریوں سے ہو گی۔

تین روزہ دورۂ کشمیر کے دوران ضلع بارہ مولہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے امِت شاہ کا کہنا تھا کہ"جنہوں نے کشمیر پر 70 برس حکومت کی وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان سے بات کریں۔ لیکن میرا مؤقف واضح ہے کہ میں پاکستان کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں یہاں بارہ مولہ میں گجروں، بکروالوں، پہاڑیوں سے بات کروں گا۔ میں عام کشمیریوں سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں کشمیر کے نوجوانوں سے بات کرنا چاہتا ہوں۔"

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی کئی سیاسی جماعتوں اور قائدین کا یہ مؤقف ہے کہ علاقے میں تشدد کے خاتمے اور دائمی امن کے قیام کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنا ناگزیر ہے۔ سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ اور محبوبہ مفتی نے گزشتہ دنوں اس مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے مودی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکراتی عمل بحال کرے۔

تین روزہ دورے کے اختتام پر سرینگر میں ایک سیکیورٹی جائزہ میٹنگ سے خطاب کے دوران امِت شاہ کا کہنا تھا کہ افسران علیحدگی پسندوں کے خلاف فعال حکمتِ عملی اپنائیں اور کشمیر میں گن کلچر کا خاتمہ کریں۔

بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں طاقت ور سمجھے جانے والے امِت شاہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ فیصلہ سازی میں اُن کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔

اُمت شاہ کو بھارتی وزیرِ اعظم کا معتمدِ خاص سمجھا جاتا ہے۔
اُمت شاہ کو بھارتی وزیرِ اعظم کا معتمدِ خاص سمجھا جاتا ہے۔

'کشمیری رہنما کھلے دماغ سے سوچیں کہ کشمیر کو دہشت گردی کی جانب کس نے دھکیلا'

امِت شاہ نے پاکستان کا نام لیے بغیر کشمیر کے ان سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ کھلی آنکھوں اور کھلے دماغ سے سوچیں کہ جموں کو کشمیر کو دہشت گردی کی جانب کس نے دھکیلا۔

انہوں نے کہا " وہ یہ دیکھیں کہ جنہوں نے یہاں دہشت گردی پھیلائی اور یہاں کے عوام کے ساتھ جو 42 ہزار سے زائد پیاروں کو تشدد کی وجہ سے کھوچکے ہیں کیا بھلا کیا ہے؟"

لائن آف کنٹرول (ایل او سی) سے متصل علاقے راجوری میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ داخلہ نے دعویٰ کیا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد کشمیر کے حالات بدل گئے ہیں اور امن بھی لوٹ آیا ہے۔

بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے یونین میں ضم کر دیا تھا۔کشمیر کی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ پاکستان نے بھی مودی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی تھی۔

امِت شاہ نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ریاست میں 2006 اور 2013 کے دوران دہشت گردی کے چار ہزار 766 واقعات رُونما ہوئے۔لیکن آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد تین برس میں دہشت گردی کے صرف 721 واقعات رُونما ہوئے۔

اُن کے بقول سال میں مجموعی طور پر 137 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت ہو رہی ہے جو ماضی کے مقابلے میں بہت کم تعداد ہے۔

امِت شاہ نے عوامی جلسوں کے لیے سرحدی مقامات کو کیوں چنا؟

سیاسی مبصرین کے مطابق امِت شاہ نے اپنے اس دورے کے دوران عوامی جلسوں کے لیے راجوری اور بارہ مولہ کو اس لیے چنا کیوں کہ ان علاقوں میں پہاڑی زبان بولنے والوں کی ایک کثیر تعداد آباد ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق ان افراد کو لبھانے کے لیے بھارتی حکومت نے 10 لاکھ نفوس پر مشتمل اس طبقے کو شیڈول ٹرائب قرار دینے کا اعلان کر دیا ہے جو اس طبقے کا دیرینہ مطالبہ تھا۔

پہاڑیوں کو یہ درجہ دینے پر 1991 میں شیڈول ٹرائب کا درجہ حاصل کرنے والے گجر اور بکروال طبقے کو اعتراض ہے۔ شیڈول ٹرائب قرار دینے کے بعد پہاڑیوں کو بھی گجر، بکروال طبقے ہی کی طرح سرکاری ملازمتوں ، پیشہ ورانہ کالجوں میں داخلے اور کئی دوسرے شعبوں میں خصوصی مراعات حاصل ہوں گی۔

بی جے پی کی نئی حکمتِ عملی کا حصہ

سیاسی مبصرین کے مطابق اس قسم کے اقدامات، اعلانات اور یقین دہانیاں دراصل نریندر مودی کی حکومت کی اس نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جس کے تحت وہ بھارت میں 2023 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل مزید عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق بی جے پی ہندو ووٹ بینک کے علاوہ کشمیر میں مسلمان ووٹرز کو راغب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی کشمیر میں بھی پہاڑی بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آبادہے اس لیے امِت شاہ جموں و کشمیر میں اس طبقے کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے کا اعلان کرکے انہیں بھی ایک سیاسی پیغام پہنچانا چاہتے تھے۔

بی جے پی اور بھارتی حکومت میں شامل کئی وزرا بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ دفعہ 370 کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر کو بھارت میں تحلیل کرنے کے بعد اب اس کے ایجنڈے میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو بھارت میں شامل کرنا ہے۔

پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور حکومتوں نے اسے بھارت کی توسیع پسندانہ سوچ قرار دیتے ہوئے اس طرح کے بیانات کی مذمت کی تھی اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر پر بھارت کی طرف سے قبضہ کرنے کو 'دیوانے کا خواب' قرار دیا تھا۔


کیا امِت شاہکا دورہ بی جے پی کی انتخابی مہم کا آغاز تھا؟

سیاسی مبصرین ان کی ان تمام سرگرمیوں کو بی جے پی کی الیکشن مہم کا آغاز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امِت شاہ کا جموں و کشمیر کا یہ دورہ دراصل ان کی پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ تھا۔وزیرِ داخلہ نے کہا کہ یہ انتخابات رائے دہندگان کی نظر ثانی شدہ فہرستوں کی تکمیل کے بعد منعقد کرائے جائیں گے۔

سرکردہ صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ارون جوشی کا کہنا ہے" امت شاہ کے جموں و کشمیر میں دیے گئے بیانات کی صحیح تاویل آئندہ مہینوں میں کی جاسکے گی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ دورہ دفعہ 370کی منسوخی کے تین سال بعد یہاں کے عوام کے موڈ کا اندازہ لگانا تھا۔"

ارون جوشی نے مزید کہا " یہ بات اس لیے بھی واضح ہوجاتی ہے کیوں کہ اامِت شاہ نے بار بار تین خاندانوں کو نکتہ چینی کا ہدف بنایا اور انہیں ان تمام مشکلات اور مصائب کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ۔

امِت شاہ کے بیانات پر اپوزیشن کا رد عمل:

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ امِت شاہ نے اس کے بقول جن باتوں کا ڈھنڈورا پیٹا زمینی حقائق ان کی نفی کرتے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے جو کچھ کہا وہ جملہ بازی سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں جس کی بی جے پی حکومت اور اس کی لیڈرشپ عادی بن چکی ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا " وہ 2018 سے جموں و کشمیر میں حکومت چلارہے ہیں لیکن ان کےپاس عوام کو دکھانے کے لیے کوئی قابلِ قدر کام نہیں ہے اس لیے وہ جملہ بازی سے کام لے رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG