’’ سفر تو سفر ہے اور چلتے چلتے آپ کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جاتے ہیں ۔ کچھ ٹھوکریں بھی لگتی ہیں ۔ بس یوں کہیے کہ ایک سیکھنے کا عمل ہے ‘‘
پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہونے والی ثمینہ احمد کے پاس ہوم اکنامکس میں ماسٹرز ڈگری ہے۔انہوں نے الحمرا آرٹس کونسل میں برسوں پروگرام ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا ۔ انتہائی مصروف کیریئر کے باوجود وہ پاکستان میں ویمنز ایکشن فورم کی بھی ایک فعال رکن ہیں ۔ ثمینہ احمد نے اپنی ایک پروڈکشن کمپنی بھی بنائی۔ مقبول ٹیلی ویژن ڈرامہ ’’ فیملی فرنٹ‘ تو سب ہی کو یاد ہوگا ، یہ ثمینہ احمد کی کمپنی کی پیشکش تھی۔ پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کے ساتھ متعدد ایوارڈز بھی اپنی صلاحیتوں کے اعتراف میں حاصل کر چکی ہیں ۔
1979 سے پاکستان کے مقبول ترین ٹیلی ویژن ڈراموں میں سے ایک ’’ وارث ‘‘ سے 2022 میں ’’ دھوپ کی دیوار‘‘ تک، کل سے آج تک کے اس سفر کو کیسے دیکھتی ہیں؟
’’ یہ ایک طویل سفر ہے کوئی پچاس برس پر محیط ۔ ایک دو لائنوں میں اگر بیان کروں تو بس یہی کہ سفر تو سفر ہے اور چلتے چلتے آپ کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جاتے ہیں ۔ کچھ ٹھوکریں بھی لگتی ہیں ۔ بس یوں کہیے کہ ایک سیکھنے کا عمل ہے اورپرفارمنگ آرٹس کے اتنے شعبوں میں کام کرنے کے بعد اب جا کر کہیں کچھ معلوم ہوا ہے‘‘۔
ورسٹائل تو وہ ہیں لیکن اداکاری کرتے ہوئے ذاتی طور پر کیسے کردار کرنا پسند کرتی ہیں ؟ مطلب سنجیدہ کردار، یا مزاحیہ ؟
ثمینہ کہتی ہیں۔ ’’ مجھے ہر کردار پسند ہے اور کردار کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔اس کی حقیقت کیا ہے اور میں کس طرح اس کے ساتھ انصاف کر سکتی ہوں۔ فیملی فرنٹ کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ سنجیدہ کردار کرتے کرتے یہ کیا ہوا اور ویسے بھی کامیڈی کرنا ایک دشوار کام ہے۔ لوگوں کو ہنسانا آسان نہیں ہوتا۔ اس کی ایک خاص ٹائمنگ اور خاص انرجی ہوتی ہے۔ اور یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ آپ کی ’’پنچ لائن‘‘ کیا ہے۔ اور پھر کردار سے مطابقت بنائے رکھنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ کام چیلنجنگ ہے اور یہی اس کی خوبصورتی بھی ہے اور آپ ہر وقت خود کو ٹیسٹ کر رہے ہوتے ہیں ‘‘
ثمینہ احمد کہتی ہیں۔ ’’ اگر غور کریں تو سبھی کچھ مشکل ہوتا ہے ۔ ریہرسلز ہوتی ہیں ۔ کردار سمجھنا ہوتا ہے۔ آپ کی مخصوص شخصیت کیسے نظر آنا چاہئے ۔ لیکن کسی بھی ڈرامے اور فلم کی تیاری میں اور شوٹنگ میں بہت وقت لگ جاتا ہے جیسے مس مارول کی تیاری اور شوٹنگ میں بہت وقت لگا‘‘۔
انہوں نے خود ہی مس مارول کا ذکر کر دیا ، جس کی آجکل امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بہت دھوم ہے ۔ ڈزنی کے اس پہلے سیزن میں کام کرنا ثمینہ کو کیسا لگا ؟ پاکستان اور بین الاقوامی پروڈکشن میں کیا اور کتنا فرق نظر آیا؟
ثمینہ بتاتی ہیں۔ ’’ بہت فرق ہے۔ ہم تقابل نہیں کر سکتے۔ ہماری فلم انڈسٹری بہت چھوٹی ہے۔ ٹیلی ویژن بھی اس طرح بڑا نہیں ہے ۔ ڈزنی تو ایک ’جائنٹ‘ ہے ۔ اور کام کرنا بہت اچھا لگا۔ بہت ریہرسلز تھیں ۔ تیاری کے لیے کافی وقت چاہئے تھا۔ بہت ’ٹیکس اور ری ٹیکس‘ رہیں۔ اور ان سب لوگوں نے مل کر بہت محنت سے کام بھی کیا۔ کام میں ماہر تھےوہ۔ ‘‘
پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنی بے شمار مصروفیات کے باوجود ثمینہ احمد نے الحمرا آرٹس کونسل میں ایک پروگرام ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ وہاں کی ذمے داریوں کی نوعیت کیا تھی اور اداکاری کے ساتھ ساتھ انتظامی امور کی ادائیگی میں توازن لانے کے بارے میں بھی ثمینہ سے بات ہوئی ۔ ثمینہ سے میں یہ بھی جاننا چاہتی تھی کہ ماضی میں خواتین کے کردار روایتی انداز میں پیش کیے جاتے رہے ۔ آج اس ضمن میں کوئی جوہری تبدیلی آ ئی ہے؟
ثمینہ کو یہ سوال پسند آیا اور انہوں نے بتایا۔’’ جو مظلومیت ہے، جو خواتین کے ساتھ گھروں میں ہوتا ہے، بس اسی ڈگر پر چل رہے ہیں ۔ بیچ میں کہیں کہیں کچھ تبدیلی آتی ہے کہ کوئی لڑکی بغاوت کرتی ہے اور کچھ تبدیلی نظر آتی ہے لیکن بیشتر ڈرامے روایتی ہیں ۔ ان کو بدلنا ایک لمبی کہانی ہے لیکن اس میں انتظامی امور اور ریٹنگ کا بھی خیال کرنا پڑتا ہے ۔ پرائم ٹائم سے ہٹ کر دوسری سلاٹ میں کچھ مختلف بات کی جا سکتی ہے۔ افسانے ہیں ۔ کہانیاں ہیں جن پر کام کیا جا سکتا ہے۔ تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور اس میں بھی ہو گی ضرور۔‘‘
وقت کو واپس لے جا سکیں تو کیا بدلنا چاہیں گی ؟
ثمینہ نے بتایا کہ۔ ’’ میں بالکل سوچتی ہوں کبھی کبھار ۔ اور یہ بھی سوچتی ہوں کہ میں نے تو بہت سی غلطیاں کی ہیں اور ان کو میں سدھار سکتی تھی۔ بہتر کام کرسکتی تھی، لیکن ہم ایک خاص وقت میں ایک خاص طرح کام کرتے ہیں ۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ میں پرفارمنگ آرٹس میں ہی کام کرتی۔ ‘‘
ثمینہ احمد نے اپنی ایک فلم ’’انتظار ‘‘ کے بارے میں بتایا، جو 19 اگست کو ریلیز ہوئی۔ اس کی ثمینہ نے تعریف کی۔انہوں نے فلم ’’کملی‘‘ کا بھی ذکر کیا۔ اور بہت سی باتیں بھی ہیں جو آپ کو سن کے اچھی لگیں گی۔
’’کل اور آج‘‘ ہماری پوڈکاسٹ سننے کے لیے مضمون میں شامل اوپر دیے گئے پہلے لنک پر کلک کریں۔