بھارت کی بالی وڈ فلم انڈسٹری جو سالانہ سینکڑوں فلمیں تیار کرکے کروڑوں روپے کا بزنس کرتی ہے وہ اب اپنی'' تاریخ کے بدترین بحران'' کا سامنا کر رہی ہے۔
یہ فلم انڈسٹری ہر سال لگ بھگ 1600 فلمیں تیار کرتی ہے، جو کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔
ان فلموں کا ذکر نہ صرف ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں ہوتا ہے بلکہ مداح فلمی ستاروں کی دیوتاؤں کی طرح پوجا بھی کرتے ہیں، جب کہ فلم کے پریمیئرز پر لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔
البتہ اب ایسا لگتا ہے کہ کھچا کھچ بھرے رہنے والے سنیما گھروں میں سناٹا ہے۔ بالی وڈ کا مرکز ممبئی جہاں سنیما میں کبھی ٹکٹ لینے کے لیے گھنٹوں انتظار بھی کرنا پڑتا تھا، وہاں کرونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیاں ختم ہونے کے بعد سے صورتِ حال معمول کے مطابق دکھائی نہیں دے رہی۔
سنیما کے باہر موجود ایک فلم بین 22 سالہ پریتی ساونت نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ ''بالی وڈ کی کئی فلمیں اچھی نہیں۔‘‘
ان کے بقول فلم کی کہانی اور مواد اچھا ہونا چاہیے تاکہ لوگ اسے دیکھنا چاہیں۔
ممبئی کے ایک پرانے تھیٹر کے مالک منوج ڈیسائی نے'اے ایف پی' سے گفتگو میں کہا کہ "یہ اب تک کا بدترین بحران ہے۔"
انہوں نے کہا کہ کچھ اسکریننگ اس لیے منسوخ کرنا پڑی کیوں کہ وہاں لوگ نہیں تھے۔
"الارا کیپٹل" کے تجزیہ کار کرن تورانی کہتے ہیں کہ گزشتہ برس وبا کے دوران 50 سے زیادہ بالی وڈ فلمیں ریلیز ہوئیں، جو معمول سے کچھ کم تھیں۔ ان کے بقول ان فلموں کا پانچواں حصہ اپنے ہدف کو پورا کرسکا یا اس سے تجاوز کیا جب کہ وبا سے قبل یہ تعداد50 فی صد تھی۔
ٹالی وڈ کا راج
بھارتی فلم انڈسٹری کو کامیاب ترین فلمیں دینے والے اکشے کمار ہوں یا عامر خان، دونوں حالیہ عرصے میں مداحوں کو اپنی فلموں کی طرف راغب کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ہالی وڈ کی "فوریسٹ گمپ" کا ری میک عامر خان کی "لال سنگھ چھڈا" بھی شائقین کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی۔
اس کے برعکس جنوبی بھارت کی کئی تیلگو زبان کی فلمیں جنہیں ’ٹالی وڈ‘ کی فلمیں بھی کہا جاتا ہے، بلندی پر پہنچ گئی ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے چیف اکنامک ایڈوائزر سومیا کانتی گھوش نے ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوری 2021 سے رواں سال اگست تک ہندی زبان کی فلموں کے لیے باکس آفس کی آدھی کمائی جنوبی بھارت کی ڈبنگ فلمیں لے اڑی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے بالی وڈ دہائیوں تک کہانیاں سنانے کے بعد اب ایسے موڑ پر ہے، جس کا اسے پہلے سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اسٹریمنگ سروسز کا عروج
دوسری جانب بالی وڈ دیگر فلم انڈسٹریز کی طرح اسٹریمنگ سروسز کے عروج سے متاثر ہے۔
اسٹریمنگز کا آغاز اگرچہ عالمی وبا سے پہلے ہوا تھا البتہ اس میں اضافہ تب ہوا، جب وبا کے باعث کروڑوں بھارتیوں کو گھروں میں بند رہنا پڑا۔
سرکاری اندازوں کے مطابق بھارت کی نصف آبادی کے پاس انٹرنیٹ اور اسٹریمنگ سروسز تک رسائی ہے، جس میں بین الاقوامی سروسز نیٹ فلکس، ایمازون پرائم، ڈزنی پلس ہوٹ اسٹار کی نو کروڑ 60 لاکھ سبسکرپشن بھی شامل ہیں۔
کرونا شٹ ڈاؤن کے دوران ریلیز ہونے والی کچھ فلمیں سیدھی ان پلیٹ فارمز پر آتی تھیں جب کہ دیگر فلمیں تھیٹروں میں ڈیبیو کرنے کے چند ہفتوں بعد ہی چھوٹی اسکرینز پر آگئی تھیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسٹریمنگ سروسز کی ماہانہ سبسکرپشن ایک ٹکٹ کی قیمت سے کم یا اس کے برابر ہے۔
ان کے بقول سنگل اسکرین سنیما میں 100 سے 200 روپے جب کہ ملٹی پلیکس میں اس سے زیادہ کا ٹکٹ ہے اور قیمت کے معاملے میں حساس فلم بین تھیٹر جانے سے گریز کر رہے تھے۔
نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ بھارت کے دو بڑے ملٹی پلیکس آپریٹرز 'آئی این او ایکس' اور 'پی وی آر' نے رواں برس مارچ میں انضمام کا اعلان کیا ۔
اسی اثنا میں سبسکرائبرز کے لیے مقامی اور عالمی اسٹریمنگ مواد لایا گیا، جس میں جنوبی تیلگو، تامل، ملیالم اور کناڈا زبان کی فلمیں بھی شامل تھیں، جس میں مقامی مداحوں کی پہلی ہی بڑی دلچسپی تھی۔
فلم ناقد راجا سین کے مطابق "علاقائی سنیما اپنی حدوں سے آگے نہیں بڑھا تھا، لیکن پھر اچانک ہر کوئی ملیالم سنیما یا مہاراشٹری سنیما دیکھنے لگا اور پھر آپ کو احساس ہوا کہ ایسے فلم ساز ہیں جو زیادہ دلچسپ کہانیاں سنا رہے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ پھر شائقین بار بار ہندی بلاک بسٹر فلم میں ایک ایسے اسٹار کو دیکھتے ہیں، جو بالکل اسی کہانی کی طرح ہوتی ہے جو وہ پہلے بھی لاکھوں مرتبہ دیکھ چکے ہوتے ہیں، لہٰذا اب وہ اس سے اتنے متاثر نہیں ہوتے۔
ناقدین بالی وڈ پر اشرافیہ کی فلمیں بنانے کا بھی الزام لگاتے ہیں، جو ایسے ملک میں اپنی گونج پیدا نہیں کرتیں جہاں 70 فی صد آبادی شہروں سے باہر رہتی ہے۔
عامر خان نے فلم ’لال سنگھ چھڈا‘ کے لیے میڈیا کو دیے گئےانٹرویوز کے دوران یہ اعتراف کیا کہ ہندی فلم سازوں کے لیے جو چیز اہم ہے، شاید بڑی تعداد میں فلم بینوں کے لیے اتنی اہم نہیں ہے۔
وہیں ٹالی وڈ کی سپر ہٹ فلمیں 'پشپا دی رائز' اور 'آر آر آر' نےعام آدمی کی بہادری کو اجاگر کیا اور دلکش گانوں اور ڈانس کے ساتھ ویژول افیکٹس سے ناظرین کو خوب متاثر کیا۔
اس طرح کے فارمولے طویل عرصے سے تک بالی وڈ کی فلموں کا مرکز رہے ہیں، البتہ فلم ناقدین کہتے ہیں کہ بھارت کے جنوب سے سامنے آنے والے چیلنجرز اسے بہتر اور بڑے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔
ملٹی تھیٹر آپریٹر اور تجارتی تجزیہ کار اکشے راٹھی کہتے ہیں کہ لوگوں کو سنیما گھروں تک لانے کے لیے ہمیں کہانی سنانے کا ایسا تجربہ لانے کی ضرورت ہے، جس سے گھر میں بیٹھ کر لطف اندوز نہیں ہوا جا سکے۔
ان کے بقول ہمیں ایسے تجربے کرنے والے لوگوں کے وقت، اخراجات اور کوشش کا احترام کرنے کی ضرورت ہے اور جب بھی کسی خاص فلم کے لیے ایسا کیا جاتا ہے تو شائقین بڑی تعداد میں فلم دیکھنے باہر آتے ہیں۔
تاہم کرن تورانی بالی وڈ کی حالیہ جدوجہد کو 'خطرناک' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ایک اسٹار کو لے کر بکس آفس کی کامیابی کی ضمانت اب یقینی نہیں رہی۔
انہوں نے کہا کہ فلم بین اسٹار کو دیکھنا ضرور چاہتے ہیں البتہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ ایسی فلم میں اسٹار کو دیکھیں جس میں زبردست مواد بھی ہو۔
بھارت کے نشریاتی ادارے ’انڈین ایکسپریس‘ نے اگست میں رپورٹ کیا تھا کہ اکشے کمار کا کہنا تھا کہ اگر ان کی فلمیں نہیں چل رہیں تو یہ ان کی غلطی ہے۔ ان کو تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔
مزید برآں دائیں بازو کے ہندو گروہ بالی وڈ کی چند فلموں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم بھی چلاتے رہے ہیں، جن میں ’فوریسٹ گمپ‘ کا ری میک 'لال سنگھ چھڈا 'بھی شامل ہے۔
اسی طرح حال ہی میں ریلیز ہونے والی 'براہماستر' کے بائیکاٹ کے مطالبات بھی سامنے آئے تھے، اس فلم کے مرکزی کرداروں میں بالی وڈ اسٹار رنبیر کپور شامل ہیں۔ کچھ سال قبل رنبیر کپور کی جانب سے گوشت کھانے پر بیان دیا گیا تھا جس پر بائیکاٹ کے مطالبات سامنے آئے ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل مواد خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لیا گیا ہے۔