رسائی کے لنکس

جب روس نے امریکہ کو لاکھوں ایکڑ زمین کوڑیوں کےبھاؤ فروخت کی


امریکہ نے 1867 میں روس سے لاکھوں ایکڑ زمین خریدی تھی۔
امریکہ نے 1867 میں روس سے لاکھوں ایکڑ زمین خریدی تھی۔

الاسکا آج امریکہ کی امیر ترین ریاستوں میں سے ایک ہے جب کہ آج سے 155 برس قبل جب امریکہ نے اس کی زمین روس سے خریدی تو اس فیصلے کو ’حماقت‘ قرار دے کر مذاق اڑایا گیا تھا۔ لیکن کس کو معلوم تھا کہ کوڑیوں کے بھاؤ خریدی گئی یہ زمین بعد میں سونا اگلے گی۔

امریکہ نے 1867 میں الاسکا کا ساڑھے 15 لاکھ 18 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد رقبہ 72 لاکھ ڈالر ادا کرکے روس سے خریدا تھا۔ اس قیمت کے حساب سے امریکہ کو الاسکا کی زمین کا ایک ایکڑ دو سینٹ سے بھی کم میں پڑا تھا۔

آج روس اور امریکہ بین الاقوامی سیاست میں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دونوں کے درمیان جاری مسابقت میں جہاں کئی دیگر عوامل اس مسابقت کو ٹکر کا مقابلہ بناتے ہیں وہیں امریکہ کا جغرافیہ روس کے مقابلے میں دفاعی اور بحری راستوں پر برتری کا اہم عنصر ہے جس میں الاسکا کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

لگ بھگ ڈیڑھ سو برس قبل روس نے یہ وسیع خطہ امریکہ کو کیوں فروخت کیا؟ قدرتی ذخائر سے مالا مال اس خطے کی اتنی کم قیمت پر خریداری کو خود امریکہ میں کیوں ’حماقت قرار‘ دیا گیا؟ اس کے پیچھے ایک دلچسپ داستان ہے۔

الاسکا میں روس کی آمد

سولہویں صدی میں روسی سلطنت نے اپنے رقبے کو وسعت دینے کے لیے شمالی امریکہ کا رُخ کیا۔ اس کی کوششوں کا دائرہ الاسکا اور اس کے بعد کیلی فورنیا تک پھیل گیا۔

الاسکا کی تاریخ پر اپنی کتاب میں مصنفہ لی اے فیرو لکھتی ہیں کہ اس مہم جوئی میں 1581 میں ایک اہم موڑ آیا جب سائبیریامیں چنگیز خان کے پوتے کے زیرِ تسلط ریاست روس کے قبضے میں چلی گئی۔ اس کے بعد آئندہ 60 برسوں کے دوران روس نے بحر الکاہل سے ملحقہ علاقوں کی جانب تیزی سے بڑھنا شروع کردیا۔

مورخین کے مطابق سردی میں جسم گرم رکھنے والی کھال اور جانوروں سے حاصل ہونے والے پروں اور اون کی منافع بخش تجارت کی وجہ سے روس سائبیریا کے پار اس علاقے کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ اس کے علاوہ روسی سلطنت ان علاقوں میں آرتھوڈوکس مسیحی عقائد کا پرچار بھی کرنا چاہتی تھی۔

اٹھارہویں صدی کے آغاز میں روس کے شہنشاہ پطرس اعظم یا پیٹر دی گریٹ نے روس کی بحری فوج تیار کی تھی۔ وہ سلطنت کو وسعت دینے کے لیے روس کے مشرق میں ایشیائی سرزمین اور خشکی پر پھیلے علاقوں تک نئی علاقے دریافت کرنا چاہتے تھے۔

اس مقصد کے لیے پیٹر نے سائبیریا سے دو مہمات روانہ کیں جن میں سے ایک 1741 میں الاسکا کے ایک گاؤں کے قریب پہنچی۔ اس مہم میں شامل افراد کو ان ساحلی علاقوں میں لومڑی، اود بلاؤ اور سمندری سیلز کا بڑا ذخیرہ دکھائی دیا۔ سرد علاقوں میں ان جانوروں کی کھال اور بال ایک بیش قیمت سرمایہ سمجھے جاتے تھے۔

ان اشیا کی تجارت کے لیے روس نے اس علاقے میں آبادکاری شروع کی لیکن سخت موسم اور خوراک سمیت دیگر ضروریات کی فراہمی میں حائل مشکلات کی وجہ سے یہاں بڑے پیمانے پر آبادیاں بسانا ممکن نہیں تھا۔

الاسکا کے وسیع و عریض زمین پر روسیوں کی آبادی کبھی800 نفوس سے تجاوز نہیں کرسکی۔ اس کے علاوہ یہ علاقہ سلطنتِ روس کے پایۂ تخت سینٹ پیٹرز برگ سے بہت دور تھا جس کی وجہ سے رابطے اور رسل و رسائل کے مسائل بھی درپیش تھے۔

الاسکا میں زراعت کے محدود امکانات کی وجہ سے بھی یہاں زیادہ بڑے پیمانے پر آبادکاری ممکن نہیں تھی۔ اس لیے روس نے جنوب کی جانب اسپین کے زیرِ تسلط علاقوں سے تجارتی روابط بڑھانا شروع کیے۔یہ علاقے آج امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں شامل ہیں۔

سن 1812 تک روسی سوداگروں نے کیلی فورنیا میں ’فورٹ رَوس‘ کے علاقے میں ٹھکانہ بنا لیا اور قلعہ بندی بھی کرلی لیکن روس کے لیے یہاں آباد کاری کرنے یا فوجی تنصیبات قائم کرنے کے لیے وسائل دستیاب نہیں تھے۔ رفتہ رفتہ اس علاقے میں روس کی دل چسپی بھی کم ہورہی تھی جس کی ایک وجہ جنگ بھی تھی۔

امریکہ کو پیشکش

روس نے 1853 میں کرائمیا میں جنگ کا آغاز کیا۔ یہاں اسے یورپ میں اپنی حریف قوتوں فرانس، برطانیہ اور سلطنتِ عثمانیہ سے مقابلہ درپیش تھا۔ 1856 میں روس کو کرائمیا میں شکست ہوئی، جس کی وجہ سے الاسکا میں اس کے لیے کوئی مہم جوئی کرنا مزید مشکل ہوگیا۔ وہ اب اس علاقے سے اپنی جان چھڑانا چاہتا تھا۔ اس لیے روس نے 1859 میں امریکہ کو الاسکا کا علاقہ فروخت کرنے کی پیشکش کردی تھی۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے آفس آف ہسٹورین کے مطابق دیگر وجوہ کے ساتھ روس اس لیے بھی الاسکا کی زمین امریکہ کو فروخت کرنا چاہتا تھا کیوں کہ اس کے خیال میں امریکہ ایک ابھرتی ہوئی قوت کے طور پر بحرالکاہل میں اس کے حریف برطانیہ کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے آگے بند باندھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

امریکہ کی دلچسپی

سن 1776 میں برطانوی نوآبادیات سے آزادی کے بعد امریکہ صرف 12 ریاستوں پر مشتمل تھا۔اس نئی قائم ہونےوالی ریاست نے 1778 میں اپنا آئین بھی بنا لیا تھا۔

انیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ نے اپنے رقبے کو وسعت دینا شروع کردی تھی۔ 1803 میں فرانس سے لوئزیانا کا وسیع علاقہ خرید کر امریکہ اپنا رقبہ دگنا کرچکا تھا۔

اس کے بعد 1840 کی دہائی میں امریکہ نے ٹیکساس کا الحاق کیا اور اسی دور میں کیلی فورنیا حاصل کرنے کے لیے میکسیکو سے جنگ کی، جس کے بعد جنوب میں امریکہ کے رقبہ مستقل وسعت حاصل کرتا گیا۔

مورخین کے مطابق امریکہ بحر الکاہل کی اہمیت کے پیش نظر 1840 کی دہائی ہی سے شمال کی جانب اپنی حدود کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔

مورخین کے مطابق روس الاسکا پر صرف ہونے وسائل کا رُخ مشرق میں اپنی مہمات پر لگانا چاہتا تھا جب کہ امریکہ کے الاسکا میں دلچسپی بڑھنے کے کئی اسباب تھے۔

امریکہ کی نظر الاسکا میں پائے جانے والے ممکنہ قدرتی وسائل پر تھی۔ وہاں اس وقت کھالوں اور بالوں سے تیار ہونے والے ملبوسات کی صنعت کے خام مال کا بڑا ذخیرہ تھا۔

اس کے علاوہ الاسکا ملنے کے بعد امریکہ کو بحرالکاہل میں نئی بندرگاہیں بھی مل رہی تھی جہاں سے چین اور جاپان کے ساتھ تجارتی راستے ہاتھ آسکتے تھے۔ اس دور میں چین سے ریشم، تام چینی اور چائے وغیرہ جیسی اشیا کی تجارت سے مغربی سوداگر بھاری منافع کماتے تھے۔

بحری راستوں تک رسائی کے ساتھ ساتھ بحرِ الکاہل کے ساحل ملنے سےامریکہ کی جغرافیائی اہمیت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوسکتا تھا۔ مستقبل کے ایسے کئی فوائد کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ کے فیصلہ ساز الاسکا کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔

اسی لیے روس نے جب 1859 میں الاسکا فروخت کرنے کی پیشکش کی تو امریکہ اسے خریدنے کے لیے فوری دلچسپی تو ظاہر کی لیکن بات آگے نہیں بڑھ سکی اور مزید چھ برس تک یہ معاملہ مؤخر ہوگیا۔

خانہ جنگی کے بعد

اس تاخیر کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ 1861 میں امریکہ میں خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا جو 1865 تک جاری رہی اور اس دوران الاسکا کی خریداری کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا رہا۔

تاہم جیسے ہی سول وار کا خاتمہ ہوا تو اس وقت کے وزیرِ خارجہ ولیم سیورڈ نے الاسکا کی خریداری کے لیے کوششیں تیز کردیں۔ سیورڈ امریکہ کے ان نمایاں سیاست دانوں میں سے تھے جو 1840 کی دہائی سے شمالی امریکہ میں ملکی رقبے کے پھیلاؤ کی اہمیت پر زور دیتے آ رہے تھے۔

سیورڈ 1861 سے 1869 تک امریکہ کے وزیرِ خارجہ رہے تھے۔ وہ صدر ابراہام لنکن کے قریبی اور قابلِ اعتماد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور لنکن ہی نے انہیں وزیرِ خارجہ مقرر کیا تھا۔

سیورڈ امریکہ میں جاری خانہ جنگی کے دور میں بھی خوش اسلوبی سے خارجہ امور چلاتے رہے اور جیسے ہی جنگ کا خاتمہ ہوا، تو انہوں نے الاسکا کے حصول کی کوششیں تیز کر دیں جو نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔

سن 1867 میں امریکہ اور روس کے مابین الاسکا کی خریداری کا معاہدہ ہوا ۔
سن 1867 میں امریکہ اور روس کے مابین الاسکا کی خریداری کا معاہدہ ہوا ۔

ان کی کوششوں سے 1867 میں روسی سفارت کار ایڈوارڈ ڈی اسٹوئیکل سے رابطہ ممکن ہوا تھا اور الاسکا کی خریداری کے معاہدے پر مذاکرات شروع ہوگئے۔ روسی پہلے الاسکا چھوڑنے کے لیے بے چین تھے اور امریکہ جیسا کوئی اور خریدار انہیں مل نہیں سکتا تھا۔ اس لیے جلد ہی 15 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کے لیے 72 لاکھ ڈالر کی قیمت پر اتفاق ہوگیا۔

اس قیمت کے حساب سے الاسکا کا جتنا رقبہ امریکہ کو مل رہا تھا اس کی فی ایکڑ قیمت صرف دو سینٹ بنتی تھی۔ بظاہر یہ مہنگا سودا نہیں لگتا تھا لیکن اول تو اس معاہدے کی تکمیل کے لیے سینیٹ سے منظوری حاصل کرنا تھی اور ساتھ ہی اس فیصلے پر پائے جانے والے شکوک و شبہات دور کرنا بھی ایک کٹھن مرحلہ تھا۔

’سیورڈ کی حماقت‘

لاکھوں ایکڑ پر پھیلے الاسکا کے بے آباد علاقے کی وجہ سے سینیٹ میں اس کی خریداری کے فیصلے کا مذاق اڑایا جارہا تھا۔اس دور کے اخبارات میں اس مجوزہ معاہدے کو ’سیورڈ فولی‘ یا ’وزیرِ خارجہ سیورڈ کی حماقت‘ قرار دیا گیا۔

اس فیصلے کی تائید کرنے پر اس وقت کے صدر اینڈریو جانسن کو بھی تنقید اور تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن سیورڈ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے الاسکا میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کے بارے میں سائنس دانوں اور ماہرین کی رائے کی تشہیر کی۔ الاسکا کی خریداری کے لیے ان کی سب مضبوط دلیل اس کے معاشی فوائد تھے۔

اس کے علاوہ انہوں نے سینیٹ کے کئی اہم ارکان اور خانہ جنگی کے دور میں جنگ کے ہیروز کے طور پر سامنے آنے والی بعض شخصیات سے بھی اس فیصلے کی تائید حاصل کی۔

سیورڈ کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور سینیٹ نے 9 اپریل 1867 میں الاسکا کی خریداری کے معاہدے کی توثیق کردی۔ اس کے بعد 28 مئی کو صدر اینڈریو جونسن نے اس معاہدے پر دستخط کیے جس کے 6 ماہ بعد 18 اکتوبر 1867 کو الاسکا باقاعدہ طور پر امریکہ میں شامل ہوگیا۔

حماقت یا دور اندیشی

الاسکا کے امریکہ میں شامل ہونے کے بعد کم و بیش 30 برس بعد تک حکومت نے یہاں انفرااسٹرکچر کی تعمیر یا حکومتی ڈھانچا کھڑا کرنے پر توجہ نہیں دی۔

اس عرصے میں الاسکا پر اس کی خریداری کے وقت ظاہر کیے گئے شکوک و شبہات کا سایہ رہا لیکن 1896 میں یہاں سونے کی کانیں دریافت ہونے سے اس کی خریداری کی ’حماقت‘ دور اندیشی قرار پائی۔ اس سرزمین میں اربوں ڈالر کے تیل، کاپر، سونے، پلاٹینیم اور زنک کے ذخائر چھپے ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ دوسری عالمی جنگ کے دور میں الاسکا کی امریکہ کے دفاع میں کلیدی اہمیت بھی آشکار ہوئی جس کے بعد 1959 میں اسے ریاست کا درجہ دیا گیا۔

تاریخ نے دو سینٹ فی ایکڑ کی معمولی قیمت پر خریدی گئی الاسکا کی سرزمین کو امریکہ کے لیے انمول ثابت کیا۔

XS
SM
MD
LG