حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں جن خواتین کو طالبان کے قبضے کے خلاف احتجاج کر نے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں حراستی تحویل کے دوران اذیتیں دی گئیں اور بد سلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ، ان خواتین نے بتایا کہ انہیں انکے خاندانوں سمیت بلا وجہ پکڑا گیا، جن میں بچے بھی شامل تھے ۔ انہیں دھمکیاں دی گئیں، مارا پیٹا گیا، خطرناک حالات میں بند رکھا گیا، قانونی چارہ جوئی کی اجازت نہیں دی گئی ، رہائی کے لئے نا زیبا شرائط رکھی گئیں ، ان کے علاوہ دوسری زیادتیاں بھی کی گئیں۔ حکام نے گرفتار کئے گئے مرد رشتہ داروں کو الیکٹرک شاکس دیے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین نے دوران تحویل اپنے جو تجربات بتائے ہیں وہ اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ طالبان اپنی تحویل میں خواتین احتجاجیوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھتے ہیں۔ اور یہ احتجاجی تحریک کو خاموش کرنے کے لئے طالبان کی کوششوں کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی خواتین کے حقوق کی ایسو سی ایٹ ڈائیرکٹر ہیدر بار کہتی ہیں کہ طالبان کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کی بہادری ناقابل یقین ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبان ان کی سرگرمیوں سے کس قدر خوفزدہ ہیں اور ان کو خاموش کرنے کی کوشش میں کس قدر بربریت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
طالبان نے فروری دو ہزار بائیس میں کابل میں ایک مکان پر چھاپے کے دوران تین خواتین کو گرفتار کیا اور انہیں اور انکے خاندانوں کو کئی ہفتے تک وزارت داخلہ کی عمارت میں بند رکھا۔انہیں بظاہر خواتین کے حقوق کے لئے احتجاج کی منصوبہ بندی میں شامل ہونے اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے الزام میں پکڑا گیا۔ رہائی کے بعد وہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پندرہ اگست دو ہزار اکیس کو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سلب کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔جبکہ خواتین نے بھی طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے پہلے ہفتے ہی سے سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیا تھا۔ اور یہ احتجاج وہ ان سنگین خطرات کے باوجود کرتی رہیں جو انہیں درپیش تھے۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ان احتجاجی مظاہروں پر طالبان کا رد عمل شروع ہی سے جابرانہ تھا۔ وہ احتجاج کرنے والی خواتین کو زدوکوب کرتے تھے،مظاہروں میں خلل ڈالنے کے ساتھ ان صحافیوں کو بھی گرفتار کرتے رہے جو ان مظاہروں کی خبریں شائع یا نشر کرتے تھے۔
ہیدر بار کہتی ہیں کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کو طالبان حکمرانی کے بعض انتہائی سخت رویّوں کا سامنا ہے ۔بار نے کہا کہ یہ خواتین افغانستان میں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے انتہائی مشکل جنگ کی قیادت کررہی ہیں۔ بد قسمتی سے عالمی برادری نہ ان کے ساتھ کھڑی ہوئی اور نہ اس نے ان مسائل پرخاطر خواہ توجہ دی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان میڈیا کو، طالبان کے دور میں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔80 فیصد تک خواتین افغان صحافی اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکی ہیں اور باقی کو سنگین پابندیوں کا سامنا ہے۔ ٹیلی ویژن پر پروگرام پیش کرنے والی خواتین کو چہرے پر نقاب ڈالنا پڑتا ہے۔سیکنڈری سکول کی طالبات کو سکول جانے کی اجازت نہیں۔
اگرچہ طالبان حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کی قیادت سابق افغان جمہوریہ کے مقابلے میں زیادہ قابل احتساب اور مقبول ہے، تاہم ملک میں کیے گئے غیر جانبدارسروے ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی افغانوں میں بے نظیرمصائب کا باعث بنی ہے، ایک حالیہ گیلپ پول کے مطابق، 94 فیصد افغانوں نے ’’اپنی زندگیوں کو تکلیف سے عبارت قرار دیا ہے ۔‘‘
92 فیصد مردوں کے مقابلےخواتین میں 96 فیصد کا اپنی زندگیوں کے بارے میں یہی کہنا ہے۔ افغانستان کے مختلف علاقوں کے درمیان مصائب کی سطح میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں تھا۔