رسائی کے لنکس

آر ایس ایس رہنما کی نظام الدین اولیا درگاہ پر حاضری، کیا ہندوؤں اور مسلمانوں میں اختلاف کم ہوگا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مسلمانوں کے درمیان ہندو احیا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نظریات کی تبلیغ و ترویج کے لیے قائم آر ایس ایس کی تنظیم ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کےسربراہ اندریش کمار نے ہفتے کی شام دہلی میں واقع حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ پر حاضری دی اور چادر چڑھائی۔

انہوں نے اسی احاطے میں واقع حضرت امیر خسرو کی درگاہ پر بھی چادر چڑھائی۔

اس موقع پر اندریش کمار نے حضرت نظام الدین اولیا کے 719 ویں عرس اور ہندو مذہب کے تہوار دیوالی کی مناسبت سے مٹی کے 719 دیے روشن کیے۔ 719 واں عرس اگلے ماہ منعقد ہونے والا ہے جب کہ دیوالی کا تہوار پیر کے روز منایا جائے گا۔ اس پروگرام کو جشن چراغاں کا نام دیا گیا۔

درگاہ کے سجادہ نشینوں میں سے ایک سید افسر علی نظامی نے اندریش کمار کی دستار بندی کی اور درگاہ پر ان سے دعا کرائی۔

اس موقع پر اندریش کمار نے وہاں موجود صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت تہواروں اور میلوں ٹھیلوں کا ملک ہے۔ ان سے عوام میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا اور بھائی چارہ مضبوط ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ملک میں امن اتحاد اور خوش حالی کے لیے دعا کی ہے۔

انہوں نے دیوالی تہوار کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس سے مختلف فرقوں میں میل ملاپ قائم ہوتا ہے اور نفرت و تعصب کا خاتمہ ہوتا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم ملک میں امن و یگانگت اور بھائی چارہ چاہتے ہیں۔

اندریش کمار نے مزید کہا کہ کوئی بھی کسی کو اپنا مذہب بدلنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی کو مذہب کے نام پر تشدد برپا کرنے کی اجازت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہیے اور کسی بھی مذہب پر تنقید نہیں کرنا چاہیے۔

ان کے بقول اگر تما م مذاہب کا احترام کیاجائے تو ملک سے ان انتہا پسندوں کا خاتمہ ہو جائے گا جو جمعے کو پتھراؤ کرتے ہیں۔

درگاہ کے سجادہ نشین سید افسر علی نظامی کا کہنا ہے کہ اندریش کمار پہلے بھی حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ پر حاضری دینے آتے اور چادر چڑھاتے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اندریش کم از کم ایک گھنٹہ درگاہ کے اندر رہے۔ انہوں نے ان سے دعا کرائی۔ اندریش نے اپنی گفتگو میں امن و اتحاد کا پیغام دیا۔

افسر علی نظامی نے کہا کہ وہ اندریش کمار کی آمد کے مقصد کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ،البتہ ان کا کام دعا کرانا ہے اور جو بھی آتا ہے وہ اس سے دعا کراتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد درگاہ پر حاضری دیتی ہے۔

ان کے بقول دیوالی کے موقع پر بہت سے ہندو آکر درگاہ میں دیے جلاتے اور یہاں روشن کیے جانے والے دیے اپنے گھر لے جا کر پوجا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک بزرگ کے مزار پر روشن ہونے والے دیے سے اپنے گھروں میں اجالا کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن درگاہ کمیٹی کے نائب صدر ساجد علی نظامی اور درگاہ کے ایک خادم ناظم علی نظامی نے درگاہ پر اندریش کی حاضری اور چادر پوشی کو سیاسی مقصد سے اٹھایا جانے والا قدم قرار دیا۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ درگاہ میں سیاسی رہنماؤں کی حاضری میں عقیدت کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے تحت درگاہ آتے ہیں جب کہ عوام حضرت نظام الدین اولیا سے عقیدت کی وجہ سے حاضری دیتے ہیں۔

ساجد علی نظامی نے کہا کہ اس سے قبل آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے دہلی کی ایک مسجد اور ایک مدرسے کا جو دورہ کیا تھا، وہ بھی سیاسی مقاصد کے تحت تھا۔

ان کے بقول آر ایس ایس مسلمانوں کی ہمدرد نہیں ہے۔ اس تنظیم سے وابستہ افراد پر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔

آر ایس ایس کی جانب سے اس قسم کے الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ موہن بھاگوت نے اپنی تقریروں میں بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ ہندو اور مسلمان سبھی اس ملک کے باشندے ہیں اور مسلمانوں کے بغیر ملک ادھورا ہے۔

موہن بھاگوت نے 22 ستمبر کو نئی دہلی میں انڈیا گیٹ کے پاس کستوربا گاندھی مارگ پر واقع مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مذکورہ مسجد آل انڈیا امام آرگنائزیشن کا صدر دفتر ہے۔

انہوں نے امام آرگنائزیشن کے صدر مولانا عمیر الیاسی سے ملاقات کی اور فصیل بند شہر میں واقع ان کے حفظ و تجوید کے ایک مدرسے کا بھی دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر اندریش کمار بھی موجود تھے۔

موہن بھاگوت نے اس سے قبل 22 اگست کو پانچ سرکردہ مسلم شخصیات سے ملاقات کی اور ملک میں امن و اتحاد کے قیام کے سلسلے میں گفتگو کی تھی۔ اس ملاقات میں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق رکن پارلیمان شاہد صدیقی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ اور ایک صنعت کار سعید شیروانی شامل تھے۔

آر ایس ایس اور مسلم شخصیات کے درمیان ملاقات کے سلسلے میں مسلمانوں میں الگ الگ رائے ہے۔ بعض نے ایسی ملاقاتوں کی ضرورت پر زور دیا تو بعض نے ان ملاقاتوں کو بے معنی قرار دیا۔

آر ایس ایس اور مسلمانوں کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ بات چیت سے اختلافات دور ہوں گے جب کہ مخالفت کرنے والوں کے خیال میں آر ایس ایس کے نظریات مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہیں لہٰذا ایسی ملاقاتوں سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کے مطابق اگر آر ایس ایس کے رہنماؤں کو مسلمانوں سے ملاقات اور مذاکرات کرنے ہی ہیں، تو انہیں مسلمانوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلمانوں کی تنظیموں جماعت اسلامی ہند اور جمعیت علما ہند کے نمائندوں سے ملاقات کرنی چاہیے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG