توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کی نااہلی پر ہونے والے مظاہروں میں شرکا کی تعداد کے معاملے پر پی ٹی آئی اور حکومت آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کی نااہلی کے بعد بہت کم تعداد میں لوگ باہر نکلے جب کہ تحریکِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ احتجاج کی کال نہ دیے جانے کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلے۔
احتجاج سے متعلق وزارتِ داخلہ کی جانب سے سامنے آنے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان احتجاج میں مظاہرین کی تعداد دو ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔
وفاقی وزیرِداخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر شہر وں میں30 سے 40 افراد سے زیادہ باہر نہیں نکلے، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایک رات پہلے سے ہی اپنے کارکنوں کو فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں سڑکوں پر نکالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی۔
ان کے بقول عمران خان کی جانب سے احتجاج ختم کرنے کا اعلان اس وقت سامنے آیا جب احتجاج ختم ہوچکا تھا۔
واضح رہے کہ جمعہ کو توشہ خانہ ریفرنس میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دیا تھا جس پر تحریک انصاف نے کمیشن پر جانب داری کا الزام لگایا تھا جب کہ حکمراں اتحاد نے اسے انصاف پر مبنی فیصلہ قرار دیا تھا۔
ادھر پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے اس احتجاج کے حوالے سے کوئی کال نہیں دی تھی لیکن اس کے باوجود عوام خود نکلے اور پورا ملک جام ہوگیا۔ ان کے بقول عمران خان نے لانگ مارچ کی تیاری کے لیے کارکنوں کو گھر جانے کا مشورہ دیا۔
پی ٹی آئی کے احتجاج سے متلع وزارت داخلہ نے جو فہرست جاری کی ہے اس کے مطابق اسلام آباد جہاں سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی فیض آباد کے مقام پر ہوئی وہاں 250 سے 300 کے قریب لوگ موجود تھے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق اسلام آباد میں تین مقامات پر احتجاج ہوا جہاں کہیں بھی سو سے زائد افراد موجود نہ تھے۔ راولپنڈی میں چار، لاہور میں آٹھ مقامات پر احتجاج ہوا جہاں زیادہ سے زیادہ 300 لوگ چونگی امر سدھو پر موجود تھے۔
فہرست کے مطابق کراچی میں ہونے والے احتجاج میں 900 سے ایک ہزار تک افراد موجود تھے جب کہ خیبرپختونخوا میں چکدرہ موٹروے انٹرچینج پر 2000 تک لوگ موجود تھے۔
عمران خان نے احتجاج کی کال دی ہی نہیں تھی: فیصل جاوید
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اس احتجاج کی کال نہیں دی تھی بلکہ لوگ خود سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج پرامن تھا لیکن پولیس نے اشتعال انگیزی سے کام لیا اور فیض آباد میں جہاں ہم پرامن احتجاج کررہے تھے وہاں ہم پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور اس کے بعد ہم پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ۔
ان کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت کے دوران اپوزیشن نے کئی احتجاج کیے اور انہیں ڈی چوک تک آنے کی اجازت بھی دی گئی لیکن کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ تاہم موجودہ حکومت ہر معمولی سے احتجاج پر پوری قیادت کے خلاف ایف آئی آرز درج کراکر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
عمران خان نے مظاہرین کو واپس جانے کا کیوں کہا؟ اس سوال پر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ ہمارا اصل احتجاج لانگ مارچ ہے جس کے لیے تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اسلام آباد میں کم سے کم 10 سے 15 لاکھ تک لوگ احتجاج کے لیے آئیں گے۔
فیصل جاوید نے کہا کہ ''ہمارا احتجاج ہمیشہ پرامن ہوتا ہے اور ہم سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق پرامن احتجاج ہی کریں گے کیوں کہ ہمارے ساتھ گھریلو خواتین ،بچے بھی شامل ہوتے ہیں اور عام شہری بھی اس احتجاج میں شریک ہوتے ہیں۔لیکن حکومت جس انداز میں احتجاج کرنے والوں پر شیلنگ اور تشدد کر رہی ہے ایسا ماضی میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں پر مقدمات
الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کو نااہل کیے جانے کے فیصلے کے بعد اسلام آباد میں اب تک آٹھ مقدمات درج ہوچکے ہیں، جن میں تین مقدمات دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہوئے ہیں۔
اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ سائیڈ ویز کی دیواریں توڑ کر سڑک کو بلاک کیا گیا۔فٹ پاتھ،بجلی کے کھمبوں اور زیرِ تعمیر تنصیبات کو جگہ جگہ سے نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ درختوں کو آگ لگائی گئی اور درختوں کو کاٹ کر سڑک پر ڈالا گیا۔
پولیس کے مطابق تمام افسران و جوانوں کے پاس امن و امان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر کوئی بھی اسلحہ و مہلک ہتھیار موجود نہیں تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان مظاہرین نے اپنی قیادت کے ساتھ مل کر پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔ جس کے نتیجے میں ایف سی اہلکار اور چار پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق اسی طرح کے واقعات فیض آباد، ترامڑی چوک، کھنہ پل اور اسلام آباد چوک پر بھی پیش آئے۔ تنصیبات کی تعمیر نو کے لیے متعلقہ حکام کو مطلع کردیا گیا ہے جط کہ پولیس افسران کا بھی علاج معالجہ جاری ہے۔میڈیکو لیگل رپورٹ کےمطابق قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ آٹھ مقدمات میں 78 ملزمان نامزد اور سینکڑوں نامعلوم ہیں۔ یہ ایف آئی آرز تھانہ سیکریٹریٹ، آئی نائن، کھنہ، شہزاد ٹاؤن، سہالہ، بھارہ کہو اور سنگجانی میں درج ہوئی ہیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہونے والے احتجاج پرصرف ایک ایف آئی آر درج ہوئی جو گوجر خان میں احتجاج کے دوران آرمی چیف جنرل جنرل قمر جاوید باجوہ کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرنے اور نعرے بازی کرنے پر ایک شخص کے خلاف درج کی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر مہم
پی ٹی آئی کے اس احتجاج کے دوران لوگوں کی شمولیت کا معاملہ سوشل میڈیا پر بھی موضوعِ بحث ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ٹوئٹر پر ایک پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا کہ یہ لوگ اسے لاڈلہ کہتے ہیں لیکن یہ پوری قوم کا لاڈلہ ہے۔
دوسری جانب ٹوئٹر پر پاکستان تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کا ٹرینڈ بھی چلا جس میں ایک صارف سائرہ علی نے ایک جلتے ہوئے رکشے کی تصویر ٹویٹ کی اور کہا کہ کیا اس رکشے والے نے عمران خان کو نااہل کیا تھا؟