سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر کو حال ہی میں خریدنے والے دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے منگل کے روز ٹوئٹر بلو کے نام سے اپنی سبسکرپشن سروس کا اعلان کیا ہے۔ اس نئے منصوبے کے تحت کوئی بھی صارف ماہانہ آٹھ ڈالر فیس کی ادائیگی کر کے نیلے رنگ کا چیک مارک یعنی تصدیق شدہ اکاؤنٹ حاصل کر سکتا ہے۔
ٹوئٹر صارفین سے تصدیق شدہ اکاؤنٹ حاصل کرنے یا رکھنے کے لیے ماہانہ19.99 ڈالر وصول کرنے کے اپنے منصوبے پر تنقید کا سامنا کرنے کے بعد، ایلون مسک نے اس فیس کو کم کر کے اب8 ڈالر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق ایسے صارفین جو ادائیگی نہیں کریں گے انہیں 'بلو ٹک' سے محروم ہونا پڑے گا۔
پیر کے روز امریکی مصنف اسٹیفن کنگ نے، جن کے ٹوئٹر پر تقریباً سات ملین فالورز ہیں ، ٹوئٹر کے تصدیق شدہ اکاونٹ کو بر قرار رکھنے کے لئے ادائیگی کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا:
’’"بلیو چیک رکھنے کے لیے ماہانہ $20؟ انہیں (ٹوئٹر) چاہیے کہ بلیو چیک رکھنے کے لیے ماہانہ 20 ڈالر مجھے ادا کریں۔‘‘
اس ٹوئٹ کے جواب میں مسک نے کہا کہ ’’ ہمیں بھی اپنے اخراجات پورے کرنے ہیں، ٹوئٹر مکمل طور پر مشتہرین پر انحصار نہیں کر سکتا۔ 8 ڈالرکے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘۔
منگل کو مسک نے 8 ڈالر کی قیمت کا اعادہ کیا اور اپنے نئے منصوبے کے لیے مزید تفصیلات شیئر کیں۔ انہوں نے کہا کہ سبسکرائبرز کو جوابات، تبصروں اور سرچ میں ترجیح ملے گی۔ ساتھ ہی ساتھ طویل ویڈیو اور آڈیو مواد پوسٹ کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔ ایلون مسک نے مزید کہا کہ اس فیس کا تعین ہر ملک کے اندر صارفین کی قوت خرید کے مطابق کیا جائے گا۔
مسک کی ٹوئٹ کے آتے ہی پاکستا ن میں بھی کچھ پرانے صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
کامیڈین علی گل پیر کہتے ہیں کہ وہ یہ فیس ادا نہیں کریں گے۔ بلیو ٹک سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرا تصدیق شدہ اکاونٹ حاصل کرنے کی وجہ تھی کیونکہ میرے نام پر کچھ جعلی اکاؤنٹس تھے اس لیے میں ایک بلیو ٹک والا یعنی تصدیق شدہ اکاؤنٹ چاہتا تھا تاکہ سب کو معلوم ہو سکے کہ یہ اکاؤنٹ میرا ہے باقی سب فیک ہیں۔
عرب نیوز پاکستان کے آن لائن ایڈیٹر کاشف عمران کہتے ہیں کہ وہ اس نیلے سائن کےلیے پیسے نہیں دیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹوئٹر یہ نشان یعنی بلیو ٹک کسی بھی صارف کے قابل بھروسہ ہونے کی بنیاد پر اسے تفویض کرتا ہے۔ اگر ٹوئٹر ہمیں سماجی رابطے کی جگہ مہیا کر ہا ہے تو ہم بھی اس کے ڈیجیٹل سماج میں ایک ذمہ دار فرد کا بھروسہ اسے لوٹا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس مساوات میں پیسے کی شمولیت ہے نہ ہونی چاہیے۔
ڈان نیوز کی اینکر اور صحافی ابصا کو مل جن کے ٹوئٹر پر دو لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں، کہتی ہیں کہ ٹوئٹر کو اس فیک نیوز کے دور میں تصدیق شدہ اکاونٹس رکھنے والے افراد خاص طور پر صحافیوں کو مزید سہولت دینی چاہیے تاکہ وہ مس انفارمیشن کا مقابلہ کر سکیں بجائے اس کہ ان پر مزید بوجھ ڈال دیا جائے۔ اگرچہ اتنی بڑی رقم نہیں، لیکن میری نظر میں کوئی بھی ماہر یا تجزیہ نگار خود ہی پیسے دیکر اپنے خیالات کا اظہار کیوں کرنا چاہے گا؟ ایسے لوگوں کا ٹوئٹر پرنہ ہونے سے اس پلیٹ فارم کو زیادہ نقصان ہوگا۔
اسامہ خلجی جو باقاعدگی سے ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ وہ یہ فیس ہرگز ادا نہیں کرینگے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کے امیر ترین شخص ( ایلون مسک) کو اپنی صداقت کی تصدیق کے لیے کوئی رقم ادا نہیں کرنا چاہتے جو ٹویٹر چار سال پہلے ہی مفت میں کر چکا تھا تاکہ پلیٹ فارم پر غیر مستند یا جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے غلط معلومات نہ پھیل سکیں۔ ’’مسک ممکنہ طور پر جانتا ہے کہ اس نے مواد کی اعتدال پر جو حرکتیں شروع کی ہیں وہ مشتہرین میں غیر مقبول ہوں گی اس لیے مالی نقصان پر قابو پانے کے لیے وہ بلیو چیکس کی ترغیب دے رہا ہے تاکہ غیر مشتبہ صارفین پلیٹ فارم کے استعمال کے لیے ادائیگی کرنا شروع کر دیں۔ اس سے ان نقصانات کا ازالہ ہو جائے گا جن کا اسے سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔
بھارتی صارف رجیمون کٹپن نے اسے ’’ سمارٹ اقدام‘‘ قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا :
ٹوئٹر کے دنیا بھر میں روزانہ تقریباً 200 ملین فعال صارفین ہیں (مجموعی طور پر تقریباً 400 ملین صارفین)۔یہاں تک کہ اگر ان یومیہ صارفین میں سے صرف 10فیصد بلیو ٹک کے لیے 8 ڈالر ادا کرنا شروع کر دیں، ٹوئٹر ماہانہ 160 ملین ڈالر اور سال میں 1.92 بلین ڈالر کمائے گا۔
ایلون مسک نے 44 ارب ڈالرز کے عوض ٹوئٹر کو خریدا ہے۔ وہ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی مشہور ترین کمپنی 'ٹیسلا' اور خلا میں راکٹ بھیجنے والے ادارے 'اسپیس ایکس' کے بھی مالک ہیں۔
ایلون مسک نے ٹوئٹر کا انتظام سنبھالتے ہی متعدد اعلیٰ عہدے داروں برطرف کر دیا تھا جن میں چیف ایگزیکٹو پراگ اگروال، چیف فنانشل افسر نیڈ سیگل اور قانونی مشیر اور پالیسی چیف وجئے گڈے شامل تھے۔