چین نے پیر کو اپنے خلائی اسٹیشن کے تیسرے اور آخری حصے کو ایک طاقت ور راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیج دیا جو زمین کے گرد گردش کرنے والے چین کے خلائی اسٹیشن سے جڑ جائے گا۔
چین کا خلائی اسٹیشن زمین سے 264 میل کی بلندی پر زمین کے گرد تقریباً 5 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے گھوم رہا ہے اور وہ زمین کے گرد اپنا ایک چکر 92 منٹ میں پورا کر لیتا ہے۔
خلا میں پہلے سے موجود ناسا کے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی رفتار بھی تقریباً یہی ہے۔
چین نے اپنے خلائی اسٹیشن کے اس تیسرے حصے کو ’ مینگ ٹین‘ کا نام دیا ہے جس کا مطلب سے ’جنت کا خواب‘۔
23 ٹن وزنی اس خلائی لیبارٹری کو ایک طاقت ور راکٹ ’لانگ مارچ 5 بی ‘ کے ذریعے چین کے صوبے ہینن میں قائم ’وین چانگ اسپیس لانچ سینٹر‘ سے روانہ کیا گیا۔
’مینگ ٹین‘ کی لمبائی تقریباً 18 میٹر اور قطر 4.2 میٹر ہے۔ خلائی اسٹیشن مکمل ہونے کے بعد اس کا کل وزن 66 ٹن ہو جائے گا جس میں چھ خلابازوں کے قیام کی سہولت دستیاب ہو گی۔ اس وقت خلائی اسٹیشن پر تین چینی خلاباز موجود ہیں جن میں سے دو مرد اور ایک خاتون ہے۔ ان کے قیام کی مدت چھ ماہ ہے اور ان کی ذمے داری خلائی اسٹیشن کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑنا اور اسے خلائی تجربہ گاہ کے طور پر فعال بنانا ہے۔
چین کے خلائی سائنس دانوں نے اپنے خلائی اسٹیشن پر خلابازوں کی رہائش کے لیے ایک مرکزی حصہ لانچ کرنے کے بعد گزشتہ سال اپریل میں اس خلائی لیبارٹری پر کام شروع کیا تھا۔
اس سال جولائی میں انہوں نے خلائی اسٹیشن کے دوسرے حصے’ وین ٹین‘ کو خلا میں بھیجا تھا۔ وین ٹین کا مطلب ہے جنت کی تلاش۔
23 ٹن وزنی وین ٹین ایک خلائی لیبارٹری ہے جہاں خلاباز سائنسی تجربات کریں گے۔ چینی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگلے دس سال کے عرصے میں خلائی لیبارٹری میں ایک ہزار کے لگ بھگ تجربات کیے جائیں گے۔
چین کا خلائی اسٹیشن اپنی تکمیل کے بعد انگریری حرف ’ٹی‘ کی شکل میں ہو گا جس کا مرکزی رہائشی حصہ ’تیان ہے‘ وسط میں ، جب کہ دونوں لیبارٹریز’ وین ٹین‘ اور ’مینگ ٹین‘ اس کے دائیں اور بائیں جڑی ہوں گی۔
چین اپنے خلائی اسٹیشن پر سائنسی تجربات میں دیگر ممالک کو بھی موقع فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کے اسپیس آفس کے تعاون سے خلائی تجربات کے پہلے مرحلے میں سوئٹرز لینڈ اور بھارت سمیت 9 ملکوں کے سائنس دانوں کی تجاویز کو منظور کیا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ناسا کا خلائی اسٹیشن آئندہ چند برسوں میں اپنی میعاد پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو جائے گا جس کے بعد خلائی تحقیق کے لیے فی الحال صرف چین کا خلائی اسٹیشن ہی دستیاب ہو گا۔
ناسا کا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن نومبر 1998 میں زمین کے مدار میں بھیجا گیا تھا جس پر اب تک تین ہزار سے زیادہ سائنسی تجربات کیے جا چکے ہیں۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن چین کے خلائی اسٹیشن کے مقابلے میں کافی بڑا ہےاور اس کا وزن 9 لاکھ 25 ہزار پونڈ سے زیادہ،لمبائی 109 میٹر اور چوڑائی 73 میٹر ہے۔ یہ سائز فٹ بال کے ایک گراؤنڈ کے لگ بھگ ہے۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کئی دوسرے ملکوں کے خلابازوں کو قیام اور تجربات کی سہولت مہیا کر رہا ہے لیکن سیکیورٹی کے پیش نظر وہ چین کے خلابازوں کی میزبانی نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ چین کو اپنا الگ خلائی اسٹیشن قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
روس بھی اپنا ایک الگ خلائی اسٹیشن قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس نے اگست میں اپنے خلائی اسٹیشن کے ایک ماڈل کی رونمائی کی تھی جسے بننے میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔
آئندہ چند روز میں چین ایک خودکار باربردار خلائی راکٹ سائنسی آلات اور دیگر سامان کے ساتھ اپنے خلائی اسٹیشن پر بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے جس کے بعد دسمبر میں تین خلاباز لمبے عرصے کے قیام کے لیے وہاں پہنچیں گے۔
چین نے 2003 پہلی بار اپنے ہی خلائی راکٹ میں اپنا ایک خلاباز زمین کے مدار میں بھیجا تھا جس کے بعد وہ روس اور امریکہ کے بعد خلا میں انسان بھیجنے والا تیسرا ملک بن گیا تھا۔
چین خلائی تحقیق میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔ اس کا ایک خودکار خلائی جہاز چاند سے پتھروں کے نمونے زمین پر لا چکا ہے اور اب اس کے سائنس دان مریخ پر زندگی کے امکان پر اپنے تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چین کا خلائی پروگرام اس کی فوج کے تحت ہے ۔ پینٹاگان نے اس پیش رفت پر حال ہی میں کہا تھا کہ چین کا خلائی پروگرام اپنی فوجی قوت کو وسعت دینے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
(اس آرٹیکل کےلیے اے پی اور رائٹرز سے استعفادہ کیا گیا ہے۔)