اقوام متحدہ کی ماحولیاتی سے متعلق تبدیلی کانفرنس، جسے COP27 کے نام سے جانا جاتا ہے، اگلے ہفتے مصر کے ساحلی مقام شرم الشیخ میں شروع ہو رہی ہے۔ یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ماحولیاتی تبدیلی کے کارکن اور ماہرین بڑی مقدار میں گرین ہاوس گیسوں کا اخراج کرنے والے ترقی یافتہ ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس کانفرنس میں سنجیدگی سے وعدے کریں کہ وہ اس سلسلے میں فوری طور پر ٹھوس اقدامات اٹھائیں گے۔۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، بین الاقوامی برادری ابھی تک 2015 کے پیرس معاہدے کے اہداف کو حاصل نہیں کر سکی ہے۔ جس میں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر اب تک اس کے لیے کوئی قابل اعتباراقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔
حکومتوں کی طرف سے کاربن میں کمی کے منصوبے ناکافی ہیں اورماحولیاتی ماہرین ترقی یافتہ ممالک سے مزید کام کرنے کو کہہ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگراینڈرسن نے وی اے او کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ "تمام گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا 75 فیصد جی 20 ممالک سے ہوتا ہے، یہ دنیا کی سب سے بڑی بیس معیشتیں ہیں۔ انہیں مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ شرم الشیخ کانفرنس میں ہونے والی بات چیت کا یہی مقصد ہے۔ انہیں فنڈنگ کے ساتھ ساتھ اپنے اخراج میں کمی لانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔"
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب قرن افریقہ ریکارڈ خشک سالی اورشدید قحط کا سامنا کر رہا ہے۔ افریقہ کاعالمی اخراج میں حصہ چار فی صد سے بھی کم ہے پھربھی گلوبل وارمنگ کے بد ترین اثرات کا شکار ہے، خوراک کے عدم تحفظ کے ساتھ تنازعات بڑھ رہے ہیں اورموسم بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے۔
گرین پیس افریقہ میں آب و ہوا اورتوانائی کی مہم چلانے والے تھنڈیل چنیاوانہو کہتے ہیں کہ "اس کے اثرات پورے براعظم میں دیکھے جا سکتے ہیں:
" قرن افریقہ میں چھوتھا سیزن ہے جب بارش نہیں ہوئی اور اس طرح یہ موسم ملک میں قحط پیدا کر رہا ہے اوراسی طرح کینیا کے بہت سے علاقے خشک سالی کی گرفت میں آتے جا رہے ہیں۔ ہم موریطانیہ اورنائیجیریا میں لوگوں کوسیلاب سے متاثردیکھ رہے ہیں، جہاں ان سیلابوں سے تیرہ لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھرہوئے ہیں۔ ہم جنوبی افریقہ میں بھی ایسے ہی حالات دیکھ رہے ہیں۔"
نیروبی میں نیچرکنزروینسی میں پالیسی اورگورنمنٹ ریلیشنز کے ڈائریکٹر برائے افریقہ مہتاری امیکو کانو نے تین طرح کی اہم سرمایہ کاری کی نشان دہی کی ہے: تکنیکی منتقلی، استعداد میں اضافہ، اور مناسب مالی وسائل کی فراہمی۔ ان کا کہنا ہے کہ "ان تین اجزاء کے بغیریہ صرف خالی خولی باتیں ہوں گی۔"
اقوام متحدہ کے ماحولیات کے ایگزیکٹو ڈائریکٹراینڈرسن کے مطابق، آگے کا راستہ واضح ہے:
’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ قابل تجدید توانائی؛ شمسی، برقی گاڑیاں، توانائی کی بچت والی عمارتیں، سمارٹ انفراسٹرکچرز میں اضافہ ہوا ہے۔ آئیے اس کو تیز کریں، آئیے اسے اور آگے بڑھائیں۔ یہ بہت واضح ہے۔ ‘‘
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے کے لیے اچھی طرح سے مربوط عالمی کارروائی کی ضرورت ہے جہاں ہرایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ گزشتہ سال گلاسگو میں ہونے والی COP26 کانفرنس میں بہت سے وعدے کیے گئے تھے اوراب شرم الشیخ کانفرنس میں ہونے والی کانفرنس پر بھی لوگوں نے اپنی توجہ مبذول کر رکھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کےعملی نتائج کب سامنے آئیں گے۔