منگل کے روز لاکھوں امریکیوں نے ایک ایسے موقعے پر ووٹ ڈالے جب ایوان اور سینیٹ میں ڈیموکریٹس کو معمولی اکثریت حاصل ہے۔ ان وسط مدتی انتخابات کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ صدر بائیڈن کی چار سالہ مدتِ صدارت کے دوسرے نصف حصے میں دارالحکومت واشنگٹن میں سیاسی بحث ایک نئی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
یہ انتخاب ایوان نمائندگان کی تمام 435 اور سینیٹ کی 100 میں 35 نشستوں پر ہوا ہے۔ 8 نومبر کو الیکشن کی سرکاری تاریخ سے پہلے ہی 4 کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ووٹر اپنا ووٹ ڈال چکے تھے۔ انہوں نے مقررہ تاریخ سے قبل ووٹنگ کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ بھیجا یا پھر انتخابی مراکز میں جا کر اپنا ووٹ ڈالا۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ انتخابات میں 2018 کے وسط مدتی انتخابات کے مقابلے میں ایک کروڑ 15 لاکھ زیادہ ووٹ ڈالے جا سکتے ہیں۔
تاریخی طور پر وسط مدتی انتخابات اہم رہے ہیں اور وہ جماعتیں جو حکومت کی ایگزیگٹو اور قانون ساز شاخوں کو کنٹرول کرتی ہیں، وسط مدتی انتخابات میں اپنی اکثریت سے محروم ہوتی رہی ہیں۔
انتخابات سے پہلےہونے والے جائزوں کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ممکنہ طور پر ری پبلیکنز ایوان یا سینیٹ یا دونوں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت کانگریس یا اس کے ایک چیمبر کو کنٹرول کرتی ہے جب کہ دوسری پارٹی کے پاس وائٹ ہاؤس کا کنٹرول ہوتا ہے تو اس سے سیاسی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔
اس بار وسط مدتی انتخابات میں چونکہ بہت بڑی تعداد میں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالے گئے ہیں، جن کی گنتی ہونے میں وقت لگ سکتا ہے اس لیے بہت ممکن ہے کہ کئی نشستوں کا نتیجہ کئی دنوں تک سامنے نہ آ سکے۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ پینسلوانیا، ایریزونا اور جارجیا میں سینیٹ کی نشستوں پر سخت مقابلہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہاں سے حتمی نتائج وصول ہونے میں کئی دن لگ جائیں۔
2020 کے انتخابات میں ووٹنگ میں بے ضابطگیوں سے متعلق شکایات سامنے آنے کے بعد اس بار ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں جماعتوں نے امریکہ بھر میں کئی مقامات پر انتخابات کی نگرانی کی۔ حالانکہ امریکی انتخابات میں واقعتاً جعل سازی کا امکان انتہائی محدود ہے۔
امریکہ کی ایک معروف سیاسی پولنگ سائٹ فائیوتھرٹی ایٹ ڈاٹ کام کے مطابق ریپبلکنز کی سینیٹ میں جیت کے امکانات 59 فی صد جب کہ ایوان میں ڈیموکریٹس کا کنٹرول ختم کرنے کے 84 فی صد امکان کا اندازہ لگایا ہے۔
معیشت اور اسقاط حمل ۔۔۔ ووٹرز کی توجہ کا مرکز
پیو ریسرچ سینٹر کے ایک حالیہ سروے میں شامل تین چوتھائی سے زیادہ امریکی ووٹروں نے کہا کہ اس الیکشن میں ان کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا پہلو ’معیشت ‘ہے۔
ریاست جارجیا کی ایک ووٹر امینڈا ڈگلس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سود کی بلند شرح، ہاؤسنگ مارکیٹ کی صورت حال، پٹرول کی اونچی قیمتیں اور اشیائے خور و نوش بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں۔ جب کہ کئی اشیا ایسی بھی ہیں جو اب دستیاب ہی نہیں ہیں۔ یہ بہت تشویش کی بات ہے۔
جون میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے اسقاط ِحمل کے وفاقی حق کو ختم کیے جانے کے بعد کچھ ووٹروں کو دیگر سماجی مسائل کے بارے میں بھی تحریک ملی ہے۔
جارجیا میں جہاں ڈیموکریٹ سینیٹر رافیل وارنوک نے، جو اپنی نشست کا دفاع کر رہے ہیں کہا کہ اس ووٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ جمہوریت داؤں پر لگی ہوئی ہے۔
ان کا مقابلہ ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے فٹ بال اسٹار ہرشل والکر سے ہے۔ انہوں نے ووٹ کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے اسے درست سمت میں نہ ڈالا تو کل ہم اس ملک کو پہچان نہیں سکیں گے۔
مڈ ٹرم الیکشن کے نتائج کے ممکنہ اثرات
ایوان میں ریپبلکنز کی جیت کی پیش گوئی کرتے ہوئے، اقلیتی رہنما کیون میکارتھی نےعزم ظاہر کیا ہے کہ ایوان کا اسپیکر بننےکی صورت میں وہ بائیڈن کے حمایت یافتہ سرکاری پروگراموں کے اخراجات میں کٹوتیوں کے لئے جائزہ لیں گے ۔ انہوں نے CNN کو بتایا کہ ریپبلکن قانون ساز، یوکرین کو روس کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے جاری امریکی اسلحے اور مالی امداد کا بھی زیادہ غور سے جائزہ لیں گے ۔
جنگ شروع ہونے کے بعد سےبائیڈن نے کانگریس میں بہت کم بحث و مباحثے کے ساتھ، کیف حکومت کو 27 ارب ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ اور انسانی ہمدردی کی امداد بھیجی ہے۔ لیکن میکارتھی نے کہا کہ ریپبلکنز اس بارے میں اس مزید تجزیے کے بغیر کہ یوکرین کو خاص طور پر کس چیز کی ضرورت ہے، اس کےلئے "سادہ چیک" دینا جاری رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
دیگر ریپبلکن قانون سازوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کے عہدہ کی مدت کے پہلے دو سال کی کارکردگی کی چھان بین شروع کریں گے، خاص طور پر میکسیکو سے ملحق جنوبی سرحد سے ہزاروں غیر دستاویزی تارکین وطن کی مسلسل آمد کے بارے میں جسےسابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح بائیڈن بھی روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
اسی دوران ڈیموکریٹس نے ریپبلکنز پر الزام لگایا ہے کہ کانگریس کا کنٹرول سنبھالنے کی صورت میں وہ معمر امریکیوں کے لیے اہم ،صحت کی دیکھ بھال اور پنشن کے فوائد میں کٹوتی کرنے کا ، یا فنڈنگ کو پانچ سالہ جائزوں سے مشروط کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
بائیڈن اور ٹرمپ دونوں نے حالیہ ہفتوں میں بالترتیب ڈیموکریٹک اور ریپبلکن امیدواروں کے لیے انتخابی مہم چلائی ہے۔
ٹرمپ نے ریلیوں میں واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ منگل کی ووٹنگ کے بعد ، چند دنوں کے اندراندر، 2024 میں وائٹ ہاؤس کے حصول کےلیےایک نئی کوشش شروع کرنے والے ہیں۔
بائیڈن نے بھی کہا ہےکہ وہ دو سالوں میں دوبارہ انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن انہوں نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔