رسائی کے لنکس

مرکزی سینسر بورڈ نے فلم 'جوائے لینڈ' کو ریلیز کی اجازت دے دی


کراچی۔پاکستان کے مرکزی سینسر بورڈ نے پاکستانی فلم 'جوائے لینڈ' کے کچھ حصے نکال کر اسے ریلیز کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

مرکزی سینسر بورڈ کے چیئرمین طاہر حسن نے وائس آف امریکہ کے عاصم علی رانا کو بتایا کہ فلم کے دو یا تین منٹ کے چند مختصر حصوں کو نکالا گیا ہے۔

ویسے تو پاکستان میں کئی فلموں کو ریلیزسے پہلے ہی بغیر کسی وجہ کے بین کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن 'جوائے لینڈ' کی ریلیز روکنے کے معاملے پر سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل سامنے آیا تھا۔

مصنف و ہدایت کار صائم صادق کی فلم کے پاس دنیا کے معتبر ترین فلم فیسٹیول کان میں جیتا ہوا ایوارڈ ہے، جو اس سے قبل کسی پاکستانی فلم کو نہیں ملا۔

فلم کی ریلیز روکنے پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فلم کے ہدایت کار صائم صادق نے کہا تھا کہ اس فیصلے سے انہیں دکھ تو پہنچا ہے لیکن وہ ہمت نہیں ہارے۔

ان کے بقول ان کی کوشش ہو گی کہ فلم 18 نومبر کو وقت پر ریلیز ہو کر عوام تک پہنچے تاکہ وہ خود اس کو دیکھنے یا نہ دیکھنے کا فیصلہ کرسکیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنےوالی فلم کو پاکستان میں نمائش کا موقع دینا چاہیے کیوں کہ اس میں ایسا کچھ نہیں جس پر کسی کو بھی اعتراض ہو۔

ٹورنٹو کے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں فلم جوائے لینڈ کے فنکاروں کا گروپ فوٹو۔ 12 ستمبر 2022
ٹورنٹو کے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں فلم جوائے لینڈ کے فنکاروں کا گروپ فوٹو۔ 12 ستمبر 2022

یہ پہلا موقع نہیں جب حکومت نے کسی پاکستانی فلم کی ریلیز کو سینسر سے پاس ہونے کے بعد روکا تھا۔ گزشتہ سال مصنف و ہدایت کار ابو علیحہ کی فلم’جاوید اقبال، دی انٹولڈ اسٹوری آف اے سیریل کلر‘ کی نمائش کو کراچی میں پریمئیر کے بعد پنجاب حکومت کے حکم پر روک دیا گیا تھا جو آج بھی متعدد ایوارڈ جیتنے کے باوجود پابندی کا شکار ہے۔

'جوائے لینڈ' کے پروڈیوسر سرمد کھوسٹ کی بطور ہدایت کار فلم ’ زندگی تماشا‘ کی ریلیز بھی کئی بار اسی انداز میں مؤخر ہوچکی ہے۔ فلم کو مذہبی و سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعتراض کی وجہ سے تاحال ریلیز نہیں کیا جاسکا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صائم صادق نے کہا ہے ان کی فلم کو ملک کے تینوں سینسر بورڈز نے پاس کردیا تھا، اس لیے کسی کے پاس اسے روکنے کا کوئی جواز نہیں تھا جب فلم کسی نے دیکھی ہی نہیں تو اس پر پابندی کیسی۔

صائم صادق پرامید ہیں کہ ان کی فلم کراچی اور لاہور میں ریلیز ہوگی کیوں کہ وفاقی حکومت کا فیصلہ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں لاگو نہیں ہوسکتا۔ انہوں نےرواں سال ریلیز ہونے والی’ ڈاکٹر اسٹرینج ان دی ملٹی ورس آف میڈنیس‘ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس فلم پر وفاقی سینسر بورڈ نے پابندی لگائی ، لیکن سندھ سینسر بورڈ نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا تھا۔

وہ ان تمام لوگوں کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اس مشکل وقت میں ان کی فلم کے لیے آواز اٹھائی اور ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ فلم پر پابندی سے آسکر میں نامزدگی متاثر ہونے کے خدشے پر انہوں نے کہا کہ فی الحال وہ فلم کی ریلیز کے علاوہ کچھ نہیں سوچ رہے۔

’ اس وقت ہماری اولین ترجیح فلم کی ریلیز کو یقینی بنانا ہے ، ہم لوگ پرامید ہیں کہ 'جوائے لینڈ ' اس بندش سے جلد چھٹکارا پالے گی، اگر یہ فلم ملک میں ریلیز نہیں ہوتی تو اس سے اس کی اکیڈمی ایوارڈمیں نامزدگی پر فرق ضرور پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے ہم ابھی نہیں سوچ رہے۔‘

کان فلم فیسٹیول میں ایوارڈ جیتنے والی فلم 'جوائے لینڈ' کو پاکستان میں ریلیز میں مشکلات کا سامنا کیوں تھا؟

رواں سال دنیا کے سب سے معتبر فلم فیسٹیول کان میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی فلم 'جوائے لینڈ' کی ریلیز پر حکومت پاکستان نے رواں ہفتے اچانک پابندی عائد کردی تھی۔ حکومت کا موقف تھا کہ انہیں فلم کے حوالے سے چند شکایات موصول ہوئیں جس کے بعد انہوں نے اس کی ریلیز کا سرٹیفیکیٹ معطل کردیا۔

کوشش ہوگی کہ فلم 'جوائے لینڈ' سنیما میں ریلیز ہو: سرمد کھوسٹ
please wait

No media source currently available

0:00 0:11:16 0:00

وزارت اطلاعات ونشریات کےاس فیصلے پر نہ صرف فلمی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑی بلکہ اس فلم کو بنانے والوں نے بھی اس اقدام پر سوال اٹھایا جو تینوں سینسر بورڈز سے کلیرنس ملنے کے بعد لیا گیا۔

'جوائے لینڈ' کی کہانی لاہور میں ایک ایسے نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو اسٹیج پر بطور ڈانسر کام کرتا ہے اور جسے اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک ٹرانس جینڈر یعنی خواجہ سرا سے محبت ہوجاتی ہے۔ یہ فلم 18 نومبر کو ملک بھر میں ریلیز ہونی تھی لیکن حکومت کے اس فیصلے کے بعد اس کی ریلیز کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔

بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ فلم کا ٹریلر رواں ماہ کے آغاز میں ریلیز کیا گیا، جس کے بعد سے فلم تنقید کی زد میں ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے 'جوائے لینڈ 'پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فلم پاکستانی معاشرتی اقدار کے خلاف ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے اس کی نمائش پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ایسی فلم جسے ایل جی بی ٹی کے موضوع کی عکاسی کرنے والی فلموں کو دیا جانے والا ایوارڈ دیا گیا ہو، اس کی پاکستان میں نمائش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سینیٹر مشتاق احمد خان کے خیال میں آسکر کے لیے بھیجی جانے والی اس فلم میں ہم جنس پرستی کو فروغ دیا گیا ہے، ان کے بقول اس فلم کے ذریعے پاکستان کے معاشرتی اقدار پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

سینیٹر کی یہ ویڈیو نومبر کے آغاز پر منظر عام پر آئی تھی جس کے جواب میں دس دن بعد ہی حکومت پاکستا ن نے اس فلم کو دیا گیا اجازت نامہ منسوخ کردی، جس کا اعلان بھی سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنے ٹوئٹر پر کیا۔

یہی نہیں، معروف ڈیزائنر ماریہ بی نے بھی اس فلم پر پابندی کے مطالبے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا تھا۔اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر انہوں نے اس فلم پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس فلم میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے زیادہ اسلامی معاشرے میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی بات کی گئی ہے۔


'جوائے لینڈ' کے حق میں شوبز شخصیات کا ردِعمل، ڈسٹری بیوٹر بھی پروڈیوسرز کے ساتھ کھڑے ہیں

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک فلم جسے پاکستان میں کسی نے نہیں دیکھا، اس پر کیسی شکایت اور کیسا اعتراض، سنسر بورڈ کے اجازت نامے کے بعد اس فلم پر پابندی کیسے لگائی جاسکتی ہے؟ یہی سوال تھا فلم میں کام کرنے والی اداکارہ ثروت گیلانی کا جنہوں نے سینسرسرٹیفیکیٹ کی منسوخی کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔

ثروت گیلانی کے مطابق اس فلم کو بنانے میں دو سو سے زائد پاکستانیوں کا خون پسینہ شامل ہے، جنہوں نے چھ سال کے عرصے تک اس پر کام کیا۔ اسے کان، ٹورنٹو اور قاہرہ میں’اسٹینڈنگ اوویشن‘ ملا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جس ملک کی یہ کہانی ہے، اسی میں اس کی نمائش پر پابندی لگادی گئی ہے۔

شوبز سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے 'جوائے لینڈ 'کی ریلیز کا مطالبہ کیا جس میں اداکار ہمایوں سعید، عثمان خالد بٹ، اداکارہ نادیہ جمیل ، اور ہدایتکارہ مہرین جبار قابلِ ذکر ہیں۔

دوسری جانب فلم کے ڈسٹری بیوٹرز ڈسٹری بیوشن کلب کے چیرمین شیخ امجد رشید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینسر سے پاس ہوجانے کے باوجود فلم کی ریلیز کو روکنے کے اقدام کو سمجھ سے باہر قرار دیا ہے۔

ان کے مطابق اس قسم کے فیصلوں سے ملک میں فلم سازی کو نقصان پہنچے گا اور ایسے موضوعات کو سامنے لانے میں مشکلات پیش آئیں گی جن پر بات کرنی ضروری ہے۔

’ جب بھی کوئی بھی ڈسٹری بیوٹر کوئی فلم اٹھاتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ فلم زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھیں۔ لیکن کوئی یہ نہیں چاہتا اور سوچتا کہ ان کی فلم پر پابندی لگ سکتی ہے۔ ہر فلم کے پیچھے ہزاروں لوگوں کی محنت ہوتی ہے جس پر پابندی لگانا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ‘

’ بطور ڈسٹری بیوٹر ہم نے بھی یہی سوچا تھا کہ’جوائے لینڈ 'جیسی فلم جس نے پاکستان کو متعدد انٹرنیشنل ایوارڈز دلوائے اس کو پاکستان میں اسکرین کرکے سنیما بینوں کو بتاسکیں کہ یہاں پر بھی اچھی فلمیں بن سکتی ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ یہ فلم جلد از جلد اسکرین پر نظر آئے تاکہ ان لوگوں کو بھی اندازہ ہو کہ اس میں ایک خوبصورت پیغام ہے، جو اس کی مخالفت کررہے ہیں۔‘

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG